نیلم داستان

حریر وحید عالم
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-**
آدھا گھنٹہ ہونے کو تھا۔ دھند کے بیچوں بیچ دو موٹر سائیکل آتے ہوئے نظر آئے۔ سانس جو کتنی ہی دیر سے حلق میں پھنس چکی تھی،دوبارہ رواں ہوئی۔ محسوس ہو رہا تھا آگے آگے اظہر ہے اور ساتھ پیچھے ٹیپو موٹر سائیکل چلا رہا ہے۔
ہم نے دل ہی دل میں رب تعالیٰ کا شکر ادا کیا اورخشمگیں نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے،سب کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ گل کی آنکھوں میں باقاعدہ آنسو آ چکے تھے۔ اس لمحے ہمیں احساس ہوا کہ اپنے کیا ہوتے ہیں اور ان کی کمی کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ میں تصور میں اپنے آپ کو ٹیپو کے ساتھ لپٹا ہوا محسوس کر رہا تھا اور سر کو اس کے کندھے پر رکھ کر آنسوؤں سے اسے اس بات پر مائل کر رہا تھا کہ خبردار آئندہ جو اس طرح ہم سے دور ہوئے، چشم تصورات میں قیس ہم سب کو باری باری گلے مل رہا تھا۔
میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ اظہر نے پاس آ کر اپنا موٹرسائیکل کھڑا کیا، اس کے چہرے کی خوشی دیدنی تھی، کچھ لمحے بعد وہ دو بھی پاس آ کر کھڑے ہوئے گل آنسو پونچھتے ہوئے قیس کی طرف بڑھا ہی تھا ٹیپو کی طنز آمیز بات نے اسے روک دیا۔
"ادھر کیوں کھڑے ہو کر وقت ضائع کر رہے ہو؟"
"ہم تم لوگوں کی وجہ سے بہت پریشان تھے، اس لئے یہاں رک کر انتظار کررہے تھے۔۔۔" میں نےصفائی پیش کرتے ہوئے کہا۔
انہوں نے موٹر سائیکل سے نیچے اترنا بھی گوارا نہ کیا تھا،ہم سب ہی اپنی جگہ پریشانی کے عالم میں تھے کہ یہ دونوں ایسا کیوں کر رہے ہیں۔
"تم لوگوں کو اتنی فکر ہوتی تو یوں پیچھے چھوڑ کر نہ آتے،جب سب کچھ طے تھا کہ ایک دوسرے کو نظروں میں رکھنا پھر بھی تم لوگوں نےاتنی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا" قیس نے شاید یہ سب باتیں پہلے سے ہی سوچ رکھی تھی۔ ہم میں سے کسی کے پاس بھی اس کا جواب نہیں تھا۔ ہماری خاموشی ہمیں مجرم ثابت کرنے کے لئے کافی تھی۔مزرا نے کوشش کی کہ کسی طرح اپنا موقف پیش کیا جا سکے۔
" بات یہ ہے کہ ہم نے یہ سوچا تھا کہ ہم ہی سب سے پیچھے ہیں اور باقی سب آگے نکل چکے ہیں اس لیے ہم بے فکر ہو کر آگے نکل آئے"
"جو بھی تھا اب اللہ کا شکر ادا کرو کہ خیر و وعافیت سے دوبارہ اکٹھے ہو گئے ہیں،اب نکلو یہاں سے۔۔" اظہر نے ہمیشہ کی طرح بڑے ہونے کا ثبوت دیا۔
"ہاں اب تو تم لوگ یہی کہو گےبحرحال تم لوگوں سے ہمیں بالکل یہ امید نہیں تھی" ٹٰیپو کی طنز بھرے لہجے نے سب کو ہی افسردہ کر دیا تھا۔ پل بھر میں ہی وہ دونوں آگے نکل چکے تھے اور ہم ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے کہ آخر یہ ہوا کیا ہے،اظہر نے اشارہ کر دیا تھا اور سب ہی دوبارہ چلنے کو تیار ہو چکے تھے۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*--*-*-*-***-*-*-*-*
سورج پہاڑی کے پیچھے چھپ چکا تھا۔ نیلم کے پاردرختوں کے سائے لمبے ہو چکے تھے۔طے ہو چکا تھا کہ ہم نے رات شاردہ گزارنی ہے اور یونیورسٹی بھی دیکھنی ہے۔ تھوڑی دیر تک انہی راستوں پر واپس آ کر ہم نے موٹر سائیکل شاردہ کی طرف موڑ دیے۔ اب طے ہی کرنا تھا کہ رات بسر کہاں کی جائے۔ اس کے لئے سب نے ہی گھوم پھر کر جگہ تلاش کرنے کی کوشش کی، ٹیپو اور قیس بدستور یہی ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان کا ہمارے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں، آخر کار جنگلات کے دفتر کے سامنے دالان میں ٹینٹ لگا دیا گیا۔ پاس کچھ بچے کھیل رہے تھے جو عجیب سی اکھیوں سے ہمیں اور ہمارے گھر کو گھور رہے تھے۔ تھوڑی تگ و دو کے بعد ان سے بات چیت کی گئی۔ ان میں سے ایک فوراً ہی پانی لے کر آ گیا۔ ابھی ہم پانی سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ باہر کسی کے کھنکھارنے کی آواز آئی۔ کسی نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔
"جی جی آ جائیں، خیریت ہے؟" ٹیپو نے ہمیشہ کی طرح بات کرنے میں پہل کی۔
" جی خیریت ہے مگر میں یہ پوچھنے آیا تھا کہ آپ نے کس کی اجازت سے ٹینٹ لگایا ہے یہاں" آ نے والا کا چہرہ بلکل سپاٹ تھا۔
"بھائی، آپ رہتے کہاں ہیں؟" قیس نے بات تبدیل کرتے ہوئے پوچھا۔
وہ اس بات کی بلکل بھی توقع نہیں کر رہا تھا کہ سوالات اس سے بھی پوچھے جا سکتے ہیں،سپاٹ چہرہ ڈھیلا پڑ گیا، نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے ہچکچا کے جواب دیا،
"جی میں یہاں،ادھر پاس ہی رہتا ہوں" اظہر ٹیک لگائے مسکرانے لگا۔ ٹینٹ میں اندھیرا تھا۔ مگر جو تھوڑی بہت روشنی آنے والے کے چہرے پر پڑ رہی تھی اس سے صاف واضح تھا کہ وہ تذبذب کا شکار ہے۔
"کہاں سے آئے ہیں آپ لوگ" اس نے پوچھا، شاید وہ اصل بات بھول چکا تھا۔ شکل سے وہ کوئی سرکاری ملازم لگ رہا تھا۔
"جی ہم کوٹلی سے آئے ہیں ادھر، بہت خوبصورت علاقہ ہے آپ کا" میں نے جواب دیا۔
"جی یہ تو ہے" اس نے وہ بات یاد کرنے کی کوشش کی جس کے لئے وہ یہاں آیا تھا۔
"آپ کتنے عرصے سے یہاں رہ رہے ہیں ؟، ہم نے بہت عجیب بات دیکھی ہے یہاں، ان علاقوں میں آپ کو جوان افراد بہت کم دکھائی دیں گے،نہ ہی خواتین نہ ہی مرد حضرات۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے جان بوجھ کر بات لمبی کی۔
"جی یہاں پر جو جوان لڑکے ہیں وہ یا تو پڑھائی یا روزگار کے سلسلے میں باہر ہی ہوتے ہیں اور جو لڑکیاں ہیں ان کی شادیاں جلدی کر دی جاتی ہیں،ہمارے علاقے میں ایک اور خاص بات یہ ہےکہ یہاں پر بزرگ بہت ملیں گے آپ کو، یہاں عمر کا تناسب بہت زیادہ ہے" سب ہی اس کی باتیں غور سے سن رہے تھے۔
"آپ بلکل ٹھیک کہ رہے ہیں، ہم نے واقعی یہ بات دیکھی ہے یہاں دکانوں اور ڈھابوں پر ہم نےزیادہ تر بزرگ ہی بیٹھے ہوئے دیکھے ہیں " مرزا نے پہلی بار گفتگو میں شرکت کی۔
آنے والا شخص اٹھ کھڑا ہوا، " اگرآپ کو کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو بتائیے گا" پلک جپھکتے ہی وہ باہر نکل چکا تھا۔
گل نے استفہامیہ نظروں سے ہمیں دیکھ کر کہا" یہ آخر آیا کیوں تھا؟"
اظہر نے کندھے اچکاتے ہوئے پتا نہیں کہا، ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اسی شخص نے ٹینٹ کے دروازے سے گردن اندر کرتے ہوئے ہمیں مخاطب کیا۔
"جی صاحب وہ مجھے یاد آئی کہ میں یہاں اس آفس میں چوکیدار ہوں اور میں یہاں آپ لوگوں کو منع کرنے آیا تھا مگر اب اپ کو یہاں سے نہیں اٹھاتاکیونکہ آپ لوگ بہت اچھے لگے ہیں مجھے،بس یہ بات کہ اگر کسی نے پوچھا آپ سے تو آپ کسی کو یہ نہ کہنا کہ اکرم نے کہا تھا کہ یہاں پر ٹینٹ لگاؤ"
"آپ فکر ہی نہ کریں، اول تو کوئی پوچھے گا یہ نہیں اور اگر کسی نے پوچھ بھی لیا تو ہم آپ کا نام نہیں بتائیں گے" اظہر نے اسے تسلی دی، وہ پیچھے مڑنے لگا تو یکدم گل کے منہ سے نکلا،
"ویسے آپ کا نام کیا ہے؟ اس بات پر سب کی ہی ہنسی نکل گئی۔اکرم کچھ نہ سمجھتے ہوئے واپس مڑا۔
"جی میں کوئی پاگل ہوں جو آپ کو اپنا نام بتاؤں" لمحے میں وہ دیوار کی دوسری طرف جا چکا تھا اور ٹینٹ زوردار قہقہوں سے گونج رہا تھا۔
*-*-*-*-***-*-*-*-*-*-**-*-*-*-*

Comments

Popular posts from this blog

تانگیر وادی

Tour Guide From Lahore & Islambad TO Hunza & Skardu