گفتگو۔۔۔۔۔۔۔ سر راہ








                                                                        گفتگو۔۔۔۔۔۔۔ سر راہ

گزرے دو دن سے یہ میرا مشغلہ ہوگیا تھا کہ میں مختلف چیزوں سے بات کرنے کی کوشیش کرتا اور آگے سے اس کا اپنے طور سے آتے جواب کا نتیجہ اخذ کرنے کی کوشیش کرتا مثال کے طور پر بہت پیچھے جنگل میں بہت سارے گھوڑے تھے قریب سے گزرتے ہوئے ان میں سے ایک کی طرف منہہ کرکے پوچھا تم نے گھاس کھائی آج جواب میں اس نے مکمل گردن موڑ کر کر میری طرف دیکھا میں کیا سمجھا اس نے کیا سمجھانے کی کوشیش کی نہیں جانتا اسی طرح راستے میں ایک بڑی آبشار جلوہ گر تھی میں نے پورے یقین سے اس سے پوچھا کہ تم کب تک بہتی رہو گی اسی وقت عین اسی وقت جیسے ہی میری بات ختم ہوئی پانی کے بہت سارے قطرے ایک بڑی مقدار میں سیدھی میرے چہرے پر آئے لگتا تھا وہ برا منا گئی ہے تب میں نے رک سیک پہنا اور کوئی چار گھنٹے کی مسافت کے بعد میں پتھروں کو ہنر مندی سے جوڑ کر بنائی گئی چھوٹی سی دیوار کے ساتھ اپنے رک سیک کو ٹیک لگائے بوتل میں انرجائل ڈال رہا تھا
کیا تم جانتے ہو میں کون ہوں۔۔۔۔۔۔۔
ہوا تیز چل رہی تھی کالے سیاہ بادل میرے سامنے سے آسمان سے نہیں بلکہ زمین سے جنم لیتے میری اور امڈتے چلے آرہے تھے پچھلے چار گھنٹے سے میں مسلسل بلندی پکڑ رہا تھا اسی لیے میں اب اس بلندی پر تھا خواہش کرتا تو بادلوں کو ہاتھ میں لے لیتا مجھے یقین تھا یہ اب برسے کہ کب اب برسے ۔۔۔تیز ہوا سے اور کسی کپڑے کی پھڑپھڑاہٹ سے جنم لیتی وہ آواز مجھے متوجہ کرتی گئی۔۔۔۔۔۔
کیا تم جانتے ہو میں کون ہوں۔۔۔۔،،
ہاں میں جانتا ہوں تم وہی بانس پر کسی پرانی قمیض کو چڑھا کے بنائے گئے ،، باوا،، ہو میرے پنجاب میں تو تمھارے ایسے بہت سے بھائی بندو بنائے جاتے ہیں جو پرندوں کو فصلوں سے بچانے کا کام دیتے ہیں اسی طرح تمھے یہاں گھر کو اور بھیڑ بکریوں کو جنگلی جانوروں سے بچانے کا کے لیے چوکیداری کے لیے ٹانگ دیا گیا ہے
ُ
ُسنو ۔۔۔۔۔۔تم نے نے مجھ سے پوچھا تھا نا میں کون ہوں
تو ُسنو ۔۔۔۔ُتم بے انتہاء خوبصورت ہو یہ سارا منظر تمھارے بغیر بیکار ہے میں تمھاری اتنی تصاویر کھینچوں گا کہ میں ہی نہیں یہ ُدنیا جان جائے گی کہ جاز بانڈا سے کوسوں ُدور کہ اکیلا گھر ہے اور ُاس گھر کے پاس پتھروں کے بولڈرز کی دیوار پر ایک اکیلا گمنام ،، باوا ،، کھڑا منظر کو تکتا رہتا ہے اب ُتم تنہاء نہیں رہو گے ہاں اب تم تنہاء نہیں رہو گے جب بھی کوئی میرے قبیلے کا آوارہ گرد ادھر آنکلے گا تمھارے پاس کچھ پل ضرور بیٹھے گا ۔۔۔۔۔۔تب دفعتا بادل زور سے گرجے حالانکہ دوران سفر میں ان سے بالکل بھی گفتگو نہیں کرنا چاہتا تھا پھر بھی گرجے ۔۔۔۔۔۔میں نے ُرک سیک کمر پر باندھا محبت بھری نظر ،،باوے ،، پر ڈالی اور جھیل کی طرف چل پڑا اگرچہ میں نے ،،باوے،، کی اور مڑ کر نہیں دیکھا لیکن پھر بھی اس کی پھڑ پھڑاہٹ ُدور تک میرے ساتھ چلتی گئی جانے کیا کہنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

تانگیر وادی

Tour Guide From Lahore & Islambad TO Hunza & Skardu