چٹا کٹھا، کالا کوٹھا
"چٹا کٹھا، کالا کوٹھا" (حصہ اول)
مہم : چٹا کٹھا جھیل، وادئ شونٹر، کشمیر
بلن دی : 4100 میٹرز
زمانہ : 23 تا 26 ستمبر 2017 خزاں رُت شمال
ٹیم : کیپٹن نادرہ ملک، میاں یاسین، عبید الرحمان بطوطا، کاشف کیلوی اور مُسافرِشَب™
خصوصی اینٹری بصد شکریہ : ڈِسکور پاکستان کی ٹیم اور لیڈر محمد عمر صاحب
مزید شدید شکریہ : حسن بلتستانی
•••
پھرتے ہیں کب سے دربدر
اب اِس نگر اب اُس نگر
اک دوسرے کے ہمسفر
مَیں اور میری آوارگی
ویسے تو مجھ جیسے لوگ شدید گھومے ہوئے ہوتے ہیں مگر آئیے آپ کو اِن آوارگیوں کی کچھ مزید وجوہات بطاؤں۔ ابھی ایک آدھ دن قبل یہ مکالمہ پیش آیا:-
"سُنو"
"جی"
"جب تم چلے گئے تو مَیں بہت روئی"
"وہ کیوں؟.. اتنا یاد آیا؟"
"ہاں... پرسوں کمرے میں چھپکلی آ گئی تھی اور اُسے مار بھگانے والا کوئی نہیں تھا"
"اوہ... سو ہارٹ بریکنگ..."
"کَل تو مَیں زیادہ روئی"
"کیوں؟"
"کَل والی چھپکلی بہت موٹی تھی"
"یار یہ تُم خواتین کا آپس کا معاملہ ہے، کسی طرح خود ہی حل کر لیا کرو.."
اب مجھے بتائیے کہ بندہ چھپلی کِلر بن کر زندگی گزار دے؟ اسی قسم کی وجوہات ہوتی ہیں جب مجھ جیسے لوگ آوارہ ہوتے ہیں۔۔ میرا مطلب ہے کہ آوارہ گردیاں شروع کرتے ہیں.. ٹریکنگ وغیرہ۔
•••
یہ کیسا نام ہے "چٹا کٹھا".. جیسے سفید رنگ کی ڈھیری وغیرہ ہو۔ کچھ عجیب سا نام ہے۔ جیسے حامد ناصر چٹھا ہو۔ اس کے مقابلے میں "رتی گلی" نام کتنا خوبصورت ہے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے اُس کا جس نے رتی گلی کو "برکاتیہ جھیل" کہنا شروع کر دیا، تب دل اتنا خراب ہوا کہ مَیں چِٹا کٹھا نامی جھیل کے لیے تیار ہو گیا.. یہ نام برکاتیہ کے مقابلے میں قابلِ قبول تھا۔
•••
ہوا کچھ یوں کہ کیپٹن نادرہ اوف ملتان نے تجویذ پیش کی کہ 23 سے 26 ستمبر کی شب تک اُن کو چھٹیاں ہیں اس لیے اِن چار دنوں میں اُنہیں چِٹا کٹھا جھیل اور رتی گلی جھیل دونوں چاہئیں.. بلکہ ارنگ کیل بھی چھڑک لیں۔ کیپٹن نادرہ معمولی ٹریکر ہرگز نہیں.. کنکورڈیا، گوندوگورو لا، مشابروم بیس کیمپ اور نِیم برف آلود مکڑا ٹاپ کے علاوہ ڈونگاگلی پائپ لائن ٹریک بھی کر چکی ہیں بوتھ ویز، جی آں۔
مَیں نے کہا کہ چونکہ مجھے چِٹا کٹھا کا تجربہ نہیں اس لیے پہلے تحقیق کروں گا کہ یہ ایک دن میں ممکن ہے بھی یا نہیں.. مزید یہ کہ چٹا کٹھا ایگزیکٹلی ہے کدھر۔ اتنے کم وقت میں اتنا کچھ تبھی کیا جا سکتا ہے جب کسی بھی منزل میں ایک دن سے زیادہ خرچا نہ آئے۔ مَیں نے قراقرم کلب پیج پر ایک پوسٹ کر کے دھو دی کہ براہِ مہربانی چٹا کٹھا کی تفصیل بتائی جائے۔ اُس پوسٹ پر ہونے والی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ چٹا کٹھا یک روزہ بالکل بھی ممکن نہیں کیونکہ کیل سے ٹریک کے آغاز تک جیپ پر ڈھائی گھنٹے لگتے ہیں۔ ٹریک کے آغاز سے لے کر آخر تک مسلسل چڑھائیاں ساہ بھی نہیں لینے دیتیں.. یعنی کیل ٹُو کیل کم از کم دو دِن چاہئیں.. لیکن آسانی کے لیے تین دِن رکھنے چاہئیں۔ لہذا ہم نے رتی گلی کو وقتی طور پر پلان میں سے نکال باہر کر دیا.. یا رتی گلی نے ہمیں نکال باہر کر دیا۔
اس کے بعد ایک مسئلہ پیدا ہو گیا.. مبارک ہو مبارک ہو۔ مسئلہ یہ تھا کہ چٹا کٹھا کے لیے ٹیم کیسے بنے گی؟ تُسی احباب میرے پلانز میں جانا جو بند ہو گئے ہو۔ کیپٹن نادرہ نے کسی طرح میاں یاسین بھائی کو تیار کر لیا۔ مَیں نے کیپٹن نادرہ کو بہت سمجھایا کہ چٹا کٹھا کے متعلق معلومات ملی ہے کہ یہ شکرپڑیاں ٹاپ، چڑیاگھر سے دامنِ کوہ ٹریک اور مکشپوری ٹریک سے ذرا زیادہ ٹف ہے.. میاں یاسین تھک نہ جائیں۔ کیپٹن نے مجھے یاد دلایا کہ میاں یاسین ماؤنٹ ایورسٹ بیس کیمپ کے علاوہ پاکستان کی ہزاروں میٹر بلند چوٹیاں فتح اور درے عبور کر چکے ہیں اور "دی ٹریکرز" کمپنی کے اہم ترین ٹوؤر لیڈرز میں سے ہیں.. ایک بار تو انہوں نے ہمت کر کے میرانجانی ٹاپ بھی سر کر لیا تھا۔ یقیناً میاں جی مکشپوری سے ذرا ٹف ٹریک ہینڈل کر ہی لیں گے۔ مَیں نے شکوک و شبہات کے ہمراہ اوکے کر دیا۔
قراقرم کلب کی اُسی پوسٹ پر میرے دوست "عبیدالرحمان" اور شاعرِ شمال قریب "عاقب شفیق" کے والد محترم شفیق شاہ نے کومنٹ کیا کہ ایک دن میں ہرگز مت کیجیے گا بلکہ میرے بطوطے کو بھی ساتھ لے جائیے، یہ گائیڈ کر دے گا کیونکہ پہلے بھی کئی بار جا چکا ہے۔ انہوں نے بطوطے کو بطوطا تو نہیں کہا مگر مَیں جانتا تھا کہ کِس بطوطے کا ذکر ہو رہا تھا۔ یہ عبیدالرحمان کی جانب اشارہ تھا جو ابنِ بطوطا کی مانند زبردست جہاں گرد ہیں۔ مَیں انہیں شیخ العجائب بھی مخاطب کرتا ہوں۔ المختصر یوں سمجھیں کہ بھائی کی زندگی کا مقصد ہی ہر جگہ پہنچ کر بلیو وہیل کی آخری والی شرط پوری کرنا ہے۔
یوں 23 ستمبر کی صبح میاں جی کو فیض آباد اور کیپٹن جی کو ڈیوو ٹرمینل اسلام آباد سے پِک کر کے بذریعہ غزال جیپ اور براستہ مری بھوربن، مظفرآباد کے لیے روانہ ہو گیا۔ جمہوریت اور آمریت نہایت پرامن طریقے سے سفر کرتے رہے حالانکہ مجھے ڈر لگا رہا کہ کسی جانب سے بغاوت نہ ہو جائے۔
ابھی ہم نے بھارہ کہو کراس کیا ہی تھا کہ فوراً پھڑے گئے۔ ہمیں پولیس چوکی پر روک لیا گیا۔ مَیں نے کیپٹن نادرہ کو اسی لیے فرنٹ سیٹ پر بٹھایا تھا تاکہ وومین-کارڈ کے ذریعے ہم پر چوکیاں کھلتی جائیں۔ شاید پولیس بھائی کو وومین-کارڈ نظر ہی نہ آیا.. کیپٹن نے ذرا پی-کیپ پہنی ہوئی تھی.. ویسے بھی وہ حلقہء ارادت میں "پاین" مشہور ہیں۔ پولیس نے پہلے تو گاڑی کے کاغذات، میرا شناختی کارڈ اور حسینوں کے خطوط دیکھے، پھر جیپ کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ننھے مُنے راہی کی جانب اشارہ کر کے کہا کہ یہ بندہ کون ہے۔ مَیں نے کہا کہ میاں جی ہیں۔ پھر اُس نے کہا کہ لڑکی کا شناختی کارڈ دکھاؤ۔ جیسے ہی پولیس بھائی نے آرمی کا کارڈ دیکھا تو فوراً کہا، یار پہلے دکھا دیتے.. چلو دوڑو۔
بھوربن کے بعد کافی نیچے اُس موڑ پر جہاں سے دریائے جہلم اور کوہالہ پُل نظر آتا ہے، وہاں ایک ریسٹورینٹ کی اوپن ایر کرسی میز پر بیٹھ کر ہم نے ڈیزل والے پراٹھے اور انڈے کھائے۔ ڈیزل والے پراٹھے کیسے ہوتے ہیں؟ ہوا کچھ یوں کہ "دی ٹریکرز" کے ایک اہم ممبر عبداللہ حسیب نے فیس بُک پر ایک تصویر لگائی جس میں ایک ملائشیئن ٹیم جی-ٹی روڈ کے کسی ڈرائیور ہوٹل کی منجیوں پر بیٹھ کر سیاہ ہو چکے پراٹھے کھا رہی تھی۔ حسیب بھائی نے تصویر کے ہمراہ لکھا "ڈیزل کے پراٹھے انجوائے کرتے ہوئے۔"
یوں 3.5 گھنٹے بعد ہم اسلام آباد سے تقریباً 119 کلومیٹر دور کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد پہنچ گئے جو دریائے جہلم، دریائے نیلم اور دریائے کنہار کے سنگھم پر واقع ہے۔ ہم لوگ تو یہاں اسلام آباد سے وہاں کشمیر جاتے ہیں مگر کشمیری لوگ وہاں سے یہاں "پاکستان" آتے ہیں۔ یعنی واپسی کا راستہ ذرا بین الاقوامی سا ہوتا ہے۔
نیلم بائی پاس روڈ کے اختتام پر عبید بھائی کھڑے تیز دھوپ سینک رہے تھے۔ بطوطا پگھل رہا تھا، بس جی کیا بطاؤں۔ مُصقراحٹوں اور باطوں کے طبادلے کے بعد اُن کا بہت بڑا بیگ کسی طرح جیپ میں فٹ کیا گیا۔
کیل میں ہم نے جو گیسٹ ہاؤس بک کیا ہوا تھا اس کے مالک کاشف صاحب کا فون آیا کہ مَیں مظفرآباد میں ہوں۔ پہلے مل کر پلان ڈسکس کرتے ہیں، پھر نیلم میں داخل ہو جاویں گے۔
بہرحال... نیلم روڈ پر آگے آگے ہماری نیلگوں جیپ غزالِ شَب جا رہی تھی۔ کافی پیچھے کاشف صاحب اپنی سفید رنگ سوزوکی پوٹھوہار میں آ رہے تھے جس پر ایک مطمئن قسم کا گینڈا بنا ہوتا ہے۔
ہماری منزل فی الحال کیل نہیں تھی بلکہ دھنی آبشار تھی جو مظفرآباد سے 30 کلومیٹر نیلم روڈ پر ہی موجود ہے.. اس آبشار کے متعلق اپنی بہت سی تحریروں میں بہت کچھ بیان کر چکا ہوں.. کہ کبھی اِک دریا کی صورت آسمان سے نازل ہوتی ہے.. کبھی چِٹی دُدھ خشک ہوتی ہے.. اور کبھی جیسے ہی اس خشک ہو چکی آبشار کے قریب جاؤ، وہ جوش میں آ کر پھوار جاری کر دیتی ہے۔
اِس بار شدید بیڑا غرق ہو گیا۔ جب ہم جیپ سے اتر کر آبشار کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ تالاب میں پانی کی جگہ گدھے ہی گدھے کھڑے تھے۔ اتنے گدھے ایک ساتھ دیکھ کر کافی خوشی بھی ہوئی کہ چلو شکر ہے، اِن کی سامنے موجودگی اِس امر کی گواہ ہے کہ کہیں اور موجود نہیں، مثلاً شکم وغیرہ میں۔
ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ کھوتا پڑھ لکھ جائے تو وہ گدھا بن جاتا ہے۔ اگر فیشن پرست ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ زیبرا بن سکتا ہے۔ دنیا میں کئی چڑیاگھر ایسے ہیں جہاں گدھوں کو رنگ روغن کر کے بطور زیبرا پیش کیا گیا ہے۔
کسی نے احتیاطاً ایک باذوق عالمِ دین سے مناسب سوال پوچھا "کیا گدھا کھانا جائز ہے؟" عالم نے جواب دیا "ویسے تو گدھے کے گوشت کی ممانعت ثابت نہیں لیکن گدھا اُس وقت حرام ہو جاتا ہے جب گدھا ہی گدھے کو کھانے کی کوشش کرے۔ احتیاطاً سمجھ لیں کہ گدھا حرام ہے۔"
غالباً بکروالوں کی مانند اب "گدھروال" بھی نیلم روڈ پر گدھا سٹاک کو سڑکوں پر سفر کرا کے "شہروں" میں پہنچا رہے ہیں۔ ٹیم میں جو لہوری احباب تھے وہ فوراً گدھوں کی جانب لپکے، خوشبو کے جھونکے ہی ایسے تھے، واہ۔ گدھوں کے اندر ایک گدھروال یوں چُھپا بیٹھا تھا جیسے اُن کے حلقے کا نمائندہ ہو.. فوراً بولا کہ یہاں کُتے بھی ہیں، قریب مت آنا ورنہ کاٹ لیں گے۔ مَیں نے کہا "ہم بھی کاٹیں گے۔" کتوں کے متعلق مَیں نے سوچا کہ یقیناً جہاں گدھے ہوں، وہاں کُتے تو ہوتے ہی ہیں۔
گدھوں سے بمشکل منہ موڑ کر ہم آگے بڑھ گئے۔ اگلی منزل کنڈل شاہی کے قریب کٹن آبشار تھی۔ یہ سارا علاقہ عبید کے اہلِ خاندان کا ہے اس لیے ہر کوئی اُسے جانتا تھا۔ بازار سے ایک دو کلومیٹر ذرا بلندی پر جاگراں ریزرٹ والی سڑک کے کنارے ہائیڈرل پروجیکٹ کے سلسلے میں بنائی گئی آبشار موجود ہے جس کی اونچائی تو دس بارہ فٹ ہو گی مگر اُس کی چوڑائی بہت شدید ہے.. پانی اتنی خوبصورتی سے بل کھا کر نیچے آتے ہیں کہ بس جی پانی بل کھا کر نیچے کو آ جاتے ہیں۔ اِس آبشار کے قریب بیٹھ کر پھوار وصول کرتے ہوئے اُسے دیکھتے رہنا بھی ایک الگ تجربہ ہے۔
جیسے ہی آبشار پر نظر پڑی، مجھے گزشتہ ٹرپ یاد آ گیا۔ ابھی پچھلے مہینے کی بات ہے کہ مَیں باجی جگنی کے ہمراہ ایک چاندنی شَب میں کنڈل شاہی پہنچا اور کھانا کھانے کے لیے کٹن میں موجود عبیدالرحمان فیملی کے ذاتی نیلم مُون گیسٹ ہاؤس کی جانب رخ کر لیا۔ وہ پورے چاند کی رات تھی اور پورے علاقے میں بتی گئی ہوئی تھی۔ جب مَیں آبشار کے قریب پہنچا تو دہشت اور خوبصورتی کی ایک ملی جلی کیفیت نازل ہو گئی۔ آبشار کے قریب سڑک پر جیپ پارک کر کے مَیں باہر نکلا اور آبشار کی جانب آ گیا۔ آسمان پر چاند شدید روشن تھا۔ پورے جنگل کے بالائی حصے نظر آ رہے تھے۔ پہاڑوں کی چوٹیاں شائبوں کی صورت تھیں۔ کٹن نالہ آبشار کی صورت شوریدہ تھا.. بلکہ عالمِ دہر کی خاموشی میں آبشار کا شفاف شور اعصاب پر طاری ہو رہا تھا اور ایسے میں وہ آبشار اتنی روشن تھی جیسے پگھل کر چمکتی چاندی کا دریا ہو۔ چاندی اور چاندنی.. واہ۔ واقعی خوبصورتی میں جب دہشت کا عنصر غالب آتا ہے تو وہ سہ چند ہو جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہو کہ خدا سے بیک وقت خوف اور محبت ضروری ہیں۔
مگر اِس وقت تو دن دیہاڑا تھا اور کافی چہل پہل تھی... مگر مَیں نے پہل ہرگز نہیں کی تھی.. اُس جانب سے ہوئی تھی۔
عبید کے ایک انکل شیخ ارشاد صاحب نے ہمیں چائے پلائی۔ وہ نیلم پریس کلب کے سابق صدر اب کشمیر پریس کلب ایسوسیشن کے نائب صدر ہیں۔ یعنی کشمیر کے اخبارات میں عاقب بھائی کی تحریریں اسی لیے انھے وا شائع ہو جاتی ہیں.. اگرچہ وہ تحریریں واقعی قابلِ اشاعت ہوتی ہیں۔ ناقابلِ اشاعت تحریروں کے لیے وہ الگ سے کتاب لکھ رہے ہیں جس کی کامیابی کی ضمانت مَیں ابھی دیتا ہوں۔
شام ہو رہی تھی۔ ہم کنڈل شاہی بازار میں واپس پہنچے۔ کاشف صاحب کا فون آیا کہ مَیں آپ سے آگے نکل چکا ہوں.. آپ دواریاں پہنچیے، آئیے رتی گلی چلتے ہیں، اس کے بعد راتوں رات کیل پہنچ جائیں گے۔
رتی گلی جھیل کے لیے کم از کم 7 گھنٹے ہونے چاہئیں۔ شام کے قریب قریب رتی گلی کی جانب صرف پاگل لوگ جاتے ہیں، مثلاً وہ جنہوں نے رتی گلی میں چاند اترتے دیکھنا ہو یا آکاش گنگا کو پانیوں میں بصورت محبوب کی ابرق سے لبریز سیاہ چادر دیکھنی ہو۔ اسی لیے مَیں نے ٹیم کے ساتھ مشورہ کر کے رتی گلی کے لیے ہامی بھر لی۔
مگر دواریاں پہنچ کر مقامی باشندوں نے کاشف صاحب کو ایسے پنگے لینے سے باز کرا دیا.. نتیجتاً ہمیں بھی باز آنا پڑا۔
وہ مہ وِش وہ ماہ رُو
وہ ماہِ کامل ہوبہو
تھیں جس کی باتیں کو بہ کو
اس سے عجب تھی گفتگو
پھر یوں ہوا وہ کھو گئی
تو مجھ کو ضِد سی ہو گئی
لائیں گے اس کو ڈُھونڈ کر
مَیں اور میری آوارگی
انشاءاللہ العزیز
شاردہ پہنچتے پہنچتے رات ہو چکی تھی اور کیل صرف ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ انجن میں کچرا آ رہا تھا اس لیے وہ مِسنگ کر رہی تھی اور رفتار ہلکی ہو رہی تھی۔ مگر کچھ دیر بعد آپئی ٹھیک ہو گئی۔
چناچہ اگر کوئی آپ سے کہے کہ "آئی ایم مِسنگ یُو".. تو سمجھ جائیں کہ اُسے کچرا آ رہا ہے اور کچھ دیر بعد ٹھیک ہو جائے گا۔
شاردہ سے کیل کے درمیان سڑک کی حالت تقریباً ویسی ہے جیسی بحرین سے کالام تک ہے، یا لاہور کی ملتان روڈ سمجھ لیں جہاں اورینج ٹرین کے لیے کام وام ہو رہا ہے۔ اُس شَب مسافرتِ شَب™ عروج پر تھی۔ گھنے سیاہ سرد مشکبار جنگل میں جیپ ٹریک نما راستہ اور "مِس یُو" کرتی غزالِ شَب.. واہ۔
بالاخر ہم کیل سے آدھا کلومیٹر قبل "کیل کناری" پہنچ گئے جہاں کاشف صاحب کا روئل فیملی گیسٹ ہاؤس موجود تھا۔ روایتی انداز میں پورا ہوٹل سدابہار دیودار کی خوشبودار لکڑی سے بنا ہوا تھا۔ کیا آپ کبھی چیڑ یا سدابہار دیودار کی لکڑی سے بنے کمرے میں رہے ہیں؟
کاشف صاحب نے ہمیں تین کمرے دے دیے۔ مَیں نے کہا کہ سر، ایک کمرہ بہت ہے۔ ہم جہاں گرد لوگ ہیں۔ ایک ہی بیڈ کے اوپر نیچے بھی پورے آ جاویں گے۔ انہوں نے کہا کہ آپ تینوں استعمال کیجیے مَیں ایک ہی لکھوں گا۔۔ جیسے کہتے ہیں کہ لگانا دس گننا ایک۔
معلوم پڑا کہ مشہور کمپنی ڈسکور پاکستان کی ٹیم بھی کیل میں کہیں موجود تھی.. شاید آزاد کشمیر ٹوؤرزم لاجز میں۔ انہوں نے بھی اگلی صبح چٹا کٹھا جانا تھا۔ دل بہت خوش ہوا کہ چلو ایک تو ٹریک پر ہم اکیلے نہیں ہوں گے، دوسرا یہ کہ شاید چٹا کٹھا ٹریک ذوق کی ہر حد تک بارونق ہو جائے۔
آخری رسومات کے طور پر ہم نے کیل بازار کے "لاہوری ہوٹل" سے "چکن کڑاہی" کھائی۔ حیرت انگیز طور پر وہاں وائی فائی کی سہولت موجود تھی۔ مَیں نے واٹس اَیپ کے ذریعے چند ضروری اور چند غیر ضروری کالز کیں اور پھر کچھ دیر فیس بک دیکھتا رہا تاکہ معلوم پڑے کہ فیس بک کے مشہور حکم "واٹس اون یور مائنڈ" پر کس کس نے عمل کیا ہے۔
واپس ہوٹل پہنچ کر اگلا پلان ڈسکس ہوا۔ جانے کس نے کیا کہا.. مگر اُس دوران ہمارا اچھا خاصا دو دن کا پلان یک روزہ ہو گیا۔ ہم نے چٹا کٹھا کو بطور چیلنج ایک دن میں سرانجام دینے کا تاریخی فیصلہ کیا۔ یہ ممکن شاید اس لیے لگ رہا تھا کہ ہم میں موجود تھے دو کنکورڈیئنز، ایک میرانجانیئن و مکڑن اور ایک بطوطا جسے بلیو وہیل کی ہر بات ماننے کی عادت ہے۔
ٹریک کے دوران اور بعد میں رلی ملی کیفیات ہی رہیں کہ جانے اس مہم کو ہم بے وقوفی کہیں یا کامیابی.. یقین کیجیے ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی۔ مگر ایک بات طے شدہ ہے کہ جو کچھ ہم نے کیا، چٹا کٹھا کی تاریخ میں بہت ہی کم لوگوں نے کیا ہو گا۔ اسی لیے مَیں یہ رایٹ اَپ لکھ رہا ہوں تاکہ قلم کے ذریعے مجھ پر انکشاف ہو کہ آخر ہویا کیا تھا۔
وہ پہلی شَب.. کیل کناری کے ایک لکڑ گیسٹ ہاؤس میں.. سدابہار دیودار کی لکڑی سے بنے مہک آور آرام دہ کمرے میں.. مَیں اور میری آوارگی، جامنی سلیپنگ بیگ کے اندر لیٹے ہوئے.. قریب ہر ممکن وقت گزاری کا سامان رکھے ہوئے، مثلاً کتابیں اور ہیڈفونز وغیرہ.. ایک پرتشویش رات تھی۔ صبح چھ بجے ایک ایسے ٹریک پر نکلنا تھا جہاں مَیں پہلے کبھی نہ گیا تھا.. ایک ایسے محبوب کی جانب سفر تھا جس کی شوخیاں، خطرناکیاں اور گستاخیاں بہت مشہور تھیں۔ اوپر سے ہم ایک دن میں کرنے کا پنگا لے بیٹھے۔ خوف یا ذوق، دونوں صورتوں میں نیند اُڑ جانا ضروری تھا.. تیری آنکھوں سے دریا کا اترنا بھی ضروری تھا۔
کچھ مزید خیالات بھی آئے۔ آجکل مجھ سے ہر اہم محفل چھوٹ رہی ہے:-
~ اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چُھوٹیں محفلیں
~ ہر شخص تیرا نام لے ہر شخص دیوانا ترا
ملتے ہیں صبح، اگلی تحریر میں۔ مَیں ذرا کچھ خواب دیکھ لوں.. اور یقیناً خواب میں بھی انسان جاگ رہا ہوتا ہے… بلکہ بعض اوقات ضرورت سے زیادہ جاگ رہا ہوتا ہے الحمدللہ۔
جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تُم ہو
اے جانِ جہاں یہ کوئی تُم سا ہے کہ تُم ہو
اِس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں
مَیں ہوں کہ کوئی اور ہے دُنیا ہَے کہ تُم ہو
دیکھو یہ کِسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری
دیکُھوں یہ کسی اور کا چہرا ہے کہ تُم ہو
اِک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ مَیں ہوں
اِک مَوج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تُم ہو
مجھے معلوم نہیں تھا کہ تُم بھی وہی ہو۔ مَیں یہ سوچے بنا تیرے پیار میں اُس وقت مبتلا ہوا جب میرا قدیم محبوب نظر کے سامنے نہیں تھا.. کہیں اور تھا۔ مجھے شرمندگی تھی.. مَیں بے وفا نہ تھا مگر تیرے حُسن نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا تھا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اے جانِ جہاں تُم میرے قدیم محبوب کا ہی ایک رُخ ہو.. میری بے وفائی اچانک وفا میں بدل گئی۔ کون ہو تُم؟
•••
صبح تقریباً 5 بجے آنکھ کھلی اور مَیں نے محسوس کیا کہ مَیں گھر پر ہی ہوں۔ وہی سفید سفید چھت، نرم و ملائم سی.. وہی گھر کی خاص فطرتی خوشبُو.. وہی مناسب درجہء حرارت.. وہی خاموشی.. وہی تنہائی، مِیلوں پر پھیلی ہوئی تنہائی.. واہ۔
جب وقت کی یہ لہر گزر گئی جس میں ہوم سِکنیس کی فیلنگ آ سکتی ہے، تب رفتہ رفتہ یاد آنا شروع ہوا کہ مَیں کہاں ہوں۔ مَیں اسلام آباد سے 274 کلومیٹر دُور کشمیر کی وادئ نیلم کے تقریباً آخری کونوں میں موجود کیل کے قصبہ میں ہوں جو دریائے نیلم سے قدرے بلند پہاڑی چوٹی پر واقع ہے۔ یہ دیودار کی خوشبودار لکڑی سے بنا ایک گیسٹ ہاؤس ہے اور وہ خوشبو کمرے میں پھیلی ہوئی ہے۔ اور اِس وقت مَیں سطح سمندر سے 6،879 فُٹ بلند ہوں۔ کِس سمندر سے؟ تُو نِیل سمندر ہے، مَیں ریت کا ساحل ہُوں۔
اصل میں میرا جامنی سلیپنگ بیگ ہر جگہ استعمال ہوتا ہے.. اکثر اوقات گھر میں بھی۔ یوں ارضِ وطن میں جہاں بھی آنکھ کھلے، اِسی بیرونی طور پر جامنی مگر اندرونی طور پر سفید بیگ کے اندر آنکھ کھلتی ہے، گویا گھر میں ہی آنکھ کھلتی ہے اور سومن حالت میں ہوم سِکنیس نہیں ہوتی۔ آپ بھی یہی کیا کیجیے۔ طرح طرح کے جراثیم سے بھی محفوظ رہیں گے۔
•••
سلیپنگ بیگ میں لیٹے لیٹے مَیں نے سبق دہرایا کہ آج کیا کرنا ہے تاکہ اُسی کے مطابق چھال مار کر اٹھ بیٹھوں یا مزید پڑا رہوں جب تک کہ کوئی دوسرا آ کر نہ اٹھا دے کہ قُم باِذن اللہ..
ہم نے ہر صورت 6 بجے نکل جانا ہے اور ناشتا کیل کے بازار میں کر کے 9000 فٹ بلند وادی میں واقع اپر دومیل کے لیے نکلنا ہے جو 20 کلومیٹر دُور اور دو گھنٹے جیپ ڈرائیو پر ہے۔ آگے 16,500 فٹ بلند ہری پربت کے ایک پہلو میں 13،500 فٹ بلند چٹا کٹھا جھیل تک 8 کلومیٹر ٹریکنگ ہے جسے انٹرنیٹ پر 5 کلومیٹر کی مشکل ٹریکنگ لکھا ہے۔ یعنی ایک ہی دن میں ڈیڑھ کلومیٹر بلند ہو جانا ہے۔ پھر اسی شب واپس کیل بھی پہنچنا ہے۔ ہم پروفیشنل ٹریکرز ہیں، کر ہی لیں گے، حالانکہ ہم سے بڑے ٹریکرز نے منع کیا ہے۔ یعنی چھال مار کر اٹھنا پڑے گا۔
•••
مَیں اٹھا اور صرف آنکھوں کی حد تک ٹھنڈے پانی سے غسل در غسل کیا.. اس سے زیادہ مجھ سے نہیں ہوتا۔ اس کے بعد گیسٹ ہاؤس سے باہر آیا اور پت جھڑ میں ارنگ کیل کے پہاڑ کی جانب نظریں مرکوز کر کے پائن سلم سلگا لیا.. خزاں اس علاقہ کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ ابھی شَب کی سردی قائم تھی اور اندھیرے کے جزیرے موجود تھے۔ دھواں دھواں ہو کر دماغ کو فور وہیل میں ڈالا اور واپس اندر آ کر ہلکا سا شور مچایا کہ روزے دارو! اٹھ جاؤ۔ تجربہ کار روزے دار پہلے ہی جاگ رہے تھے اور سامان پیک کر رہے تھے۔ چونکہ گزشتہ شب ہی فیصلہ ہو گیا تھا کہ ہم نے کیمپنگ نہیں کرنی اس لیے سلیپنگ بیگ اور شب بسری کے دوسرے اوزار ہم نے یہیں چھوڑ دینے تھے۔
میاں یاسین جس کمرے میں سوئے تھے، اُس کی کھڑکیاں مشرقی جانب ہی تھیں۔ اُن کھڑکیوں سے نیم روشنی اندر داخل ہو کر دیودار سے بنے کمرے کو شدید رومانٹِک بنا رہی تھیں۔ میرا دل چاہا کہ میاں جی سے کہوں، سر تسی تیار ہو کر باہر بیٹھو، مَیں یہاں ذرا ضروری کام سے گھنٹہ بھر سو کر آتا ہوں۔
میاں یاسین کا رکھ رکھاؤ، دھیمی پراثر شخصیت اور اِن کے اعلیٰ میعار کا سامان دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ میاں جی جہاں گردی کے معاملے میں نہ صرف سنجیدہ ہیں بلکہ جہاں گردی بھی اِن کے معاملے میں کافی سنجیدہ ہے اور اِن کی تربیت فرما رہی ہے۔ دو برس قبل مَیں "دی ٹریکرز" مہم کے ہمراہ میرانجانی جا رہا تھا۔ ٹیم لیڈر میاں یاسین تھے۔ اُس ٹرپ میں مس فریال اور سیدہ بخاری بھی تھیں۔ چونکہ اُن دنوں ٹریک پر برف تھی اس لیے ہمیں قدرے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے صحیح طرح یاد نہیں کہ ہوا کیا تھا بس اتنا یاد رہ گیا ہے کہ میاں یاسین بقیہ ٹیم کو فلائنگ کوچ کی جانب بھیج کر آدھے راستے میں موجود ایک جھیل کے کنارے بیٹھ کر ہمارا انتظار کر رہے تھے تاکہ واپسی پر ہمیں مکمل اندھیرے میں اکیلے نہ چلنا پڑے۔ اُس شَب مَیں بہت دیر تک سوچتا رہا کہ اندھیر جنگل میں ایک سیاہ جھیل کے کنارے بیٹھے ہوئے ایک تنہا شخص پر کیا کیا خیالات و کیفیات گزری ہوں گی... یہی وہ تربیت ہے جو فطرت اپنے خاص الخاص عاشقین کی کرتی ہے۔
•••
اتنی دیر میں کاشف صاحب آ گئے کہ فوراً نکل لیں، دیر نہ ہو جائے۔ کاشف صاحب نے ہی ہمیں اپر دومیل لے کر جانا تھا کیونکہ ان کی پوٹھوہار جیپ بھی فور وہیل ڈرائیو تھی۔ یعنی ہم نے کھانا، رہائش اور ٹرانسپورٹ وغیرہ سب کچھ کاشف صاحب کے ذمے لگایا تھا۔ بلکہ کاشف صاحب کہنے لگے کہ مَیں نے بھی آپ کے ساتھ چٹا کٹھا جانا ہے.. 3 گھنٹے کی واک ہی تو ہے۔
•••
پورے 6.10 بجے صبح ہم کیل بازار کے لاہوری ریسٹورینٹ میں تھے اور احتیاطاً انڈے پراٹھے کھا رہے تھے۔ کچھ اضافی پراٹھے ہم نے انہی سے بنوا لیے۔ گزشتہ شَب کا بچا ہوا چکن سالن بھی ہم نے ہمراہ رکھ لیا تھا۔ کچھ فوڈ ٹِنز بھی بیگز میں تھے۔
مَیں نے واٹس اَیپ کے ذریعے گھر میسج کر دیا کہ 'ہم ذرا یہ سامنے چٹا کٹھا تک جا رہے ہیں، شام یا رات تک واپس کیل پہنچ کر رابطہ کروں گا۔' ناردن ایریاز، خصوصاً کشمیر میں عمومی نیٹ ورکس موجود نہیں، صرف ایس-کام چلتا ہے جو آرمی کا موبائل اینڈ لینڈلائن نیٹ ورک ہے۔ اسی نیٹ ورک پر انٹرنیٹ کی سروس بھی موجود ہے جس کے ذریعے بعض ہوٹلز میں وائی-فائی سروس چلتی ہے۔
•••
دن نکل چکا تھا اور ہم سب پوٹھوہار جیپ میں لڑھکتے کودتے اپر دومیل کی جانب گامزن تھے۔ راستے میں ایک تیز رفتار چشمہ پر ایک لکڑ پُل آیا مگر کاشف صاحب نے جیپ کو پُل سے گزارنے کی بجائے چشمے کے تیز رفتار پانیوں میں ڈال دیا۔ مَیں نے پوچھا "سر، پُل کو چھوڑ کر خوامخواہ پھدکتے پانیوں میں جیپ ڈالنے کی وجوہات تحریر کریں۔" انہوں نے فرمایا "ذرا ایڈوینچر کے طور پر۔" مَیں نے کہا "سر، ہم تجربہ کار ایڈوینچررز ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ جب تک ایڈوینچر خود سر پر نہ پڑ جائے، اُس سے جان بوجھ کر پنگے نہیں لیتے۔" خیر، کاشف صاحب پوٹھوہار کو پھدکاتے رہے۔ مجھے شک پڑا کہ وہ بعض اوقات جان بوجھ کر ایسے پتھروں پر سے جیپ کو گزار رہے تھے جن سے بآسانی بچا جا سکتا تھا۔ مَیں چُپ ہی رہا کہ چلو خیر ہے، شاید وہ خود انجائے کرنا چاہ رہے ہیں۔
دائیں بائیں دیودار لکڑی سے بنے ہوئے کشمیر کے روایتی تین تین منزلہ گھر تھے جن کے اردگرد چھلی اور آلوؤں کے کھیت موجود تھے۔ اُن سے پرے قدرے سبز اور قدرے بھورے پہاڑ سربلند تھے جن کے نشیب میں مختلف ندی اور نالے رواں تھے۔ جیپ کی مصیبت یہی ہوتی ہے کہ ہر فطری آواز دب جاتی ہے.. مگر خوشبو سے فرار ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں کھڑکیاں کھول دینی چاہئیں۔
•••
ایک گاؤں کے آثار شروع ہوئے جس کا نام "لوئر دومیل" یا ترلی دومیل معلوم پڑا۔ گاؤں کے قریب ایک چٹان پر "پی-سی-او" لکھا ہوا تھا اور دو تین مقامی لوگ وہاں اوپن ایر بیٹھے فون پر بات کر رہے تھے۔ کاشف صاحب نے خود ہی فرما دیا کہ ایس-کوم کے سگنلز بس اس پوائنٹ تک آتے ہیں۔ اپنا فون یہاں لائیے اور دنیا سے رابطہ رکھیے۔ اس سے پرے کمیونیکیشن کے اعتبار سے اندھا کنواں ہے۔ مَیں نے کہا کہ اس سے آگے تھرایا سیٹلائٹ فون وغیرہ چلتے ہیں جو بڑی ٹوؤر کمپنیز کے پاس موجود ہوتے ہیں۔
یہی پوائنٹ جہاں تمام سگنلز بند ہو جاتے ہیں، ایک اور خاص سگنل شروع ہوتا ہے۔ عین سامنے "ہری پربت" کا نظارہ شروع ہو جاتا ہے۔ کیا خوبصورت پربت ہے۔ چٹا کٹھا جھیل حضرت حوا کی مانند اسی پربت کی بائیں پسلی میں موجود ہے۔
یہاں کچھ رومانٹِک جیوگرافی کی بات شیئر کرتا ہوں، ذرا توجہ فرمائیے گا۔ آزاد جموں و کشمیر کی سب سے بلند چوٹی کا نام "سروالی پِیک" ہے جسے ڈابر پِیک اور توشی-ری بھی کہتے ہیں۔ اُس کی بلندی 20،754 فٹ ہے۔ اسی سروالی پر میرے سرکل کے تین کوہ پیما کہیں غائب ہو گئے تھے۔ کہہ سکتے ہیں کہ جب تک وہ نہیں ملتے، سروالی ہی وہی ہیں۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر "ہری پربت" ہے جو 16،500 فٹ بلند ہے اور شدید ٹیکنیکل کلائمب ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ یہ دونوں خواتین آزاد کشمیر میں ہیں مگر ماؤنٹینز سائنس کے مطابق یہ دونوں خواتین "نانگاپربت" ہیں۔ جی ہاں، نانگاپربت میسف ایک وسیع سلسلہ ہے.. سروالی اور ہری پربت اسی نانگاپربتی سلسلے میں ہیں جو آزاد کشمیر میں داخل ہو جاتا ہے۔ چٹا کٹھا جھیل سے شروع ہو کر نانگاپربت کی چوٹی تک "اوپر اوپر سے" پہنچا جا سکتا ہے۔ اب نانگاپربت جن لوگوں کا محبوب ہے، یہ معلومات انہی کے لیے رومانوی ہوں گی۔
جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تُم ہو
اے جانِ جہاں یہ کوئی تُم سا ہے کہ تُم ہو
اِس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں
مَیں ہوں کہ کوئی اور ہے دُنیا ہَے کہ تُم ہو
دیکھو یہ کِسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری
دیکُھوں یہ کسی اور کا چہرا ہے کہ تُم ہو
اِک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ مَیں ہوں
اِک مَوج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تُم ہو
مجھے معلوم نہیں تھا کہ تُم بھی وہی ہو۔ مَیں یہ سوچے بنا تیرے پیار میں اُس وقت مبتلا ہوا جب میرا قدیم محبوب نظر کے سامنے نہیں تھا.. کہیں اور تھا۔ مجھے شرمندگی تھی.. مَیں بے وفا نہ تھا مگر تیرے حُسن نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا تھا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اے جانِ جہاں تُم میرے قدیم محبوب کا ہی ایک رُخ ہو.. میری بے وفائی اچانک وفا میں بدل گئی۔ کون ہو تُم؟ ہاں، یہ تُم ہو... ہری پربت۔
•••
اس کے بعد ہری پربت بار بار نظر کے سامنے آتا رہا.. ایک بلند ناقابلِ عبور دیوار۔
ایک اور موڑ پر عبیدالرحمان بطوطا کی آواز آئی "ننگی". اس سے پہلے کہ مَیں باذوق ہو کر استغفراللہ پڑھتا، وہ مزید بولا "وہ سامنے ننگی ماہلی پہاڑ ہے۔ اس میں سے آجکل رُوبیاں نکل رہی ہیں۔ روبی یا سرخ یاقوت ایک قیمتی پتھر ہوتا ہے۔" اُس خوبصورت مگر بے آب و گیاہ اور بے درخت پہاڑ کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ کچھ الگ سا پہاڑ ہے۔ معلومات ملی کہ کچھ کمپنیوں نے اس پہاڑ میں کانیں کھود رکھی ہیں اور وہ دھڑا دھڑ روبی نکال رہے ہیں۔
کچھ دیر میں ہم اسی ننگی ماہلی پر بل کھا رہے تھے۔ ایک جگہ دُور اپر دومیل کا قصبہ نظر آ رہا تھا۔ اپر دومیل سے مزید آگے چلتے جائیں تو شونٹر جھیل (چمچا جھیل) سے بھی آگے بلندی پر "شونٹر پاس" آ جاتا ہے جس کے پار گلگت استور کی وادئ رٹو ہے۔ اپردومیل سے ایک ٹریک نکلتا ہے جو سروالی پِیک بیس کیمپ تک جاتا ہے۔ سروالی کی دوسری جانب نانگاپربت کا ایک گھٹنا "میزینو پاس" ہے۔
•••
ننگی ماہلی کے قدموں میں شونٹر نالہ سے اوپر ایک کیمپ سائیٹ تھی جسے "ظہیر کا کیمپ" کہتے ہیں۔ چونکہ ہم ننگی ماہلی کے قدموں میں تھے اس لیے مَیں نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا کہ اوپر کیا ہے۔ اوپر ننگی ماہلی کی... دلکش چوٹی تھی۔
ہم نے جیپ کیمپ پارکنگ میں پارک کر دی۔ جیپ سے باہر نکل کر پتا چلا کہ ایک ٹائر کی "پِیپنی" میں سے دھڑا دھڑ ہوا نکل رہی ہے۔ کاشف صاحب نے فوراً ٹائر اتار کر سٹپنی لگائی۔ سٹپنی میں بھی ہوا نہ تھی۔ فیصلہ ہوا کہ اب دیر ہو رہی ہے، واپس آ کر دیکھیں گے۔ سیلف کرئیٹِڈ ایڈوینچر نے اپنی فیس چارج کر لی تھی۔
چٹا کٹھا ٹریک کا آغاز اس کیمپ سائیٹ سے آگے ایک آدھ کلومیٹر سڑک پر چلنے کے بعد دائیں جانب نیچے نالہ کے ایک پُل سے شروع ہوتا ہے۔ وہاں ایک گاؤں ہے جس کا نام چٹا کٹھا ہے۔
ابھی ہم سامان اٹھا چلنے ہی والے تھے کہ ایک اور جیپ کے آثار شروع ہوئے۔ جیپ قریب آئی۔ ایک ٹریکر باہر نکلا.. یہ ڈسکور پاکستان کمپنی کے مالک "محمد عمر" صاحب تھے۔ یہ وہی کمپنی ہے جس میں ملک کے مایہ ناز کوہ پیما "آصف بھٹی" بھی شغل فرماتے ہیں۔ مَیں نے جیپ میں موجود بقیہ ٹیم کو سکین کیا۔ سبھی بندے ای بندے تھے۔ یعنی چٹا کٹھا ٹریک پر آج مَردوں کی حکمرانی تھی۔ صرف ایک خاتون تھیں جو ہمارے ساتھ تھیں اور وہ بھی اہلِ ذوق میں "پاین" مشہور ہیں۔
کیپٹن نادرہ نے ابھی حال ہی میں ڈسکور پاکستان کے ہمراہ کے-ٹو بیس کیمپ مہم سرانجام دی ہے۔ اُس مہم میں "دی ٹریکرز" کی ٹیم بھی ہمراہ تھی۔ یعنی ہم سب ایک دوسرے کو جانتے تھے، لہذا کافی سلام دعا ہوئی۔ محمد عمر بھائی حیران تھے کہ ہماری ٹیم آج کی تاریخ میں چٹا کٹھا تک کیسے پہنچ پائے گی۔ بے چارے درست ہی حیران تھے۔
بہرحال سلام دعا کے بعد ہم نکل گئے۔ ایک کلومیٹر سڑک پر چلنے کے بعد دائیں جانب نشیب میں پگڈنڈیاں اتر رہی تھیں جو شونٹر نالے تک جاتی ہیں۔ وہیں کہیں وہ پُل تھا جسے عبور کر کے ہم نے ٹریک پر آ جانا تھا۔ پگڈنڈیوں پر بل کھاتے ہوئے مَیں نے اُس وادی میں نظر دوڑائی جس میں ہم نے داخل ہونا تھا۔ دائیں جانب خزاں کے رنگوں سے مزین الپائن جنگل تھا اور بہت پیچھے کہر میں ہری پربت نظر آ رہا تھا اور ایک تیز رفتار دودھیا رنگ نالہ چنگھاڑتا ہوا اوپر سے آ رہا تھا۔ اسی نالے کو "چٹا کٹھا" کہتے ہیں کیونکہ مقامی زبان میں کٹھا کا مطلب نالہ ہے۔ چٹا کٹھا نالہ ہر جگہ سفید رنگ نظر آتا ہے۔
•••
بظاہر ٹریک بہت لمبا محسوس نہیں ہو رہا تھا مگر اس وادی کے خدوخال بتا رہے تھے کہ ٹریک فوراً بلندی اختیار کرے گا اور یقیناً ساہ بھی نہیں لینے دے گا۔ ویسے عاشق یہی چاہتا ہے۔
پُل کو عبور کیا تو ریتلا ٹریک شروع ہو گیا جو وادی کی بائیں جانب تھا اور بلندی اختیار کرتا شدید پھسلواں تھا۔ اوپر چٹا کٹھا گاؤں تھا جس کی خواتین آلو کے کھیتوں میں کام کر رہی تھیں۔ مرد کوئی نہیں تھا، شاید اندر کہیں بیٹھ کر رایٹ اَپس لکھ رہے ہوں۔ گاؤں کے بعد پہلے چند سو میٹر ایک فٹ چوڑی پگڈنڈی کافی مناسب رہی مگر پھر بلندی اختیار کرنا شروع ہوئی۔ میاں یاسین اور کاشف صاحب تو نارمل واک سمجھ کر کافی آگے نکل کر ڈِنکیوں میں بدل گئے۔ مَیں اور کیپٹن دھیرے دھیرے بڑھ رہے تھے۔ عبیدالرحمان ہمارے ہمراہ تھا.. حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ کیپٹن میرے بڑے بھائیوں جیسے ہیں۔
برچ کا جنگل شروع ہوا۔ یہ وہی برچ ہے جس کی سفید رنگ چھال بالکل کتاب کے صفحات جیسی پرت در پرت ہوتی ہے۔ اور ہر صفحہ پر تیرا نام لکھا ہے۔ فیئری میڈوز سے آگے بیال کیمپ کے اخیر میں بھی ایک برچ کا جنگل موجود ہے۔ برچ ہمیشہ بلندیوں پر پایا جاتا ہے۔
جنگل میں سے گزرنا ایک دلکش تجربہ تھا۔ تیز رفتار پانیوں کی آواز۔ پرندوں کی چہچہاہٹ اور خوشبُو۔ اور کچھ یادیں جو غیر متوقع طور پر عود آئیں۔ جل جل کے دھواں ہو رہے ہم، نس نس میں نشہ بھیگا ہے مَن، یہ دل کی آرزو ہے، مر جائیں تیری بانہوں میں ہَم۔
دس منٹ کے بعد جو جنگل ختم ہوا تو ہم نے اب تک کا حسین ترین منظر ملاحظہ کیا۔ تیز رفتار دودھیا نالہ بالکل قریب آ چکا تھا.. اتنا کہ دہشت طاری ہو رہی تھی۔ اور عین سامنے تنگ وادی کے پار ٹرانگو ٹاورز نما ایک پہاڑ نظر آ رہا تھا۔ وہ ہری پربت تو نہ تھا مگر سُر اُسی تان کے تھے۔
ذرا سا مزید بلند ہوئے تو ٹریک نالہ کے عین کناروں پر آ گیا۔ اب ہم گیلے پتھروں پر ٹاپ ٹاپ کے آگے بڑھ رہے تھے۔ یقیناً نالے میں ذرا سے بھی زیادہ پانی آ جاتے تو راستہ ختم ہو جاتا۔ بائیں جانب عین عمودی دیوار تھی۔ اس علاقہ میں طرح طرح کی جڑی بوٹیاں تھیں جن کی خوشبوئیں مست کر رہی تھیں۔ ایک خوشبو ایسی آئی کہ میری آنکھیں نم ہو گئیں.. اُس خوشبو کو مَیں اتنا پہچانتا ہوں کہ اُس وقت مَیں اپنے آپ کو بھی فراموش کر دیتا ہوں۔ ہماری سانسوں میں آج تک حنا کی خوشبو مہک رہی ہے۔
سُنا ہے کہ چٹا کٹھا گاؤں سے ایک اور راستہ بھی نکلتا ہے جو دائیں جانب والے پہاڑوں سے ہوتا ہوا اوپر سے اوپر جاتا ہے۔ تب یہ نالہ بائیں جانب نشیب میں ہوتا ہے۔ وہ قدرے طویل مگر چوڑا راستہ ہے مگر وہاں ٹریکرز نہیں جاتے۔ شاید اُس وقت جاتے ہوں جب نالے میں پانی زیادہ ہو جاتے ہوں گے۔
کافی آگے پہنچ کر ٹریک ختم ہو گیا۔ سامنے ایک عمودی دیوار کھڑی تھی اور ایک جانب آبشار کی صورت نالہ چنگھاڑ رہا تھا۔ عبیدالرحمان نے کہا "اب ذرا سی کلائمب ہے"۔ کافی زیادہ کلائمب تھی۔ پیروں کے علاوہ ہاتھوں سے بھی چڑھنا پڑ رہا تھا۔ اسی جگہ کہیں "ننگی ماہلی" کا ایک خوبصورت منظر نظر آیا۔ خزاں رنگ درختوں کے پس منظر میں کہرآلود ننگی.. ماہلی..
یہ ٹریک کافی تھکا رہا تھا مگر بہرحال ہم کافی بلندی پر پہنچ گئے۔ اوپر پیالہ نما ایک سپاٹ سا میدان تھا اور ہری پربت ہر سو طاری تھا۔ بلکہ ہری کی دو چوٹیوں کے درمیان بلند وادی میں ایک گلیشیئر بھی نظر آ رہا تھا اور وہاں دھند چھا رہی تھی۔ اور بلندی کی دو چوٹیاں بہت ہوشربا ہوتی ہیں۔
اس میدان میں چرواہوں کے گھر تھے جنہیں "بہک" کہتے ہیں۔ ٹریکرز لوگ اس جگہ کو "ڈیک وَن" بولتے ہیں۔ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ بطخ والی "ڈَک" ہے یا بحری جہاز والی منزل "ڈَیک" ہے۔ بہرحال جو بھی ہے، ہم ڈیڑھ گھنٹے میں یہاں تک پہنچ چکے تھے۔
عبید نے کہا کہ ہم اچھی رفتار سے جا رہے ہیں۔ دوسرے ٹریکرز یہاں تک پہنچ کر ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور کیمپ لگا لیتے ہیں۔ چلیے آگے چلیے۔ وہ سامنے والے پہاڑ کے اوپر ڈَیک ٹُو ہے۔ اور وہاں سے ہمیں اپنی منزل دکھائی دے گی۔
اس خوبصورت میدان میں جامنی رنگ کے بے تہاشا پھول تھے۔ ہم ان پھولوں کے درمیان گزرنے کے بعد سامنے والے پہاڑ کے نیچے پہنچ گئے اور زگ زیگ کرتے ہوئے اوپر چڑھنے لگے۔ اس چڑھائی میں ہمارا پونا گھنٹہ لگا۔ ٹریک پر مختلف دوڑتے پھرتے کِرلے پیغام دے رہے تھے کہ تُسی کتھوں چڑھدے پئے او سوہنیو۔ یعنی یہ ایک شارٹ کٹ تھا۔ عبید گائیڈ ہو تو آپ سیدھے راستے کی توقع ہرگز نہ رکھیے.. البتہ خوبصورتی کی توقع ضرور رکھیے۔ اوپر دائیں جانب "ڈَیک ٹُو" کی بہکیں تھیں اور ہم اُن سے بلندی پر تھے۔
ڈَیک ٹُو تک میری اور کیپٹن نادرہ کی ہمت جواب دے چکی تھی مگر وہاں جو منظر تھا وہ ناقابلِ بیان حد تک خوبصورت تھا۔ ہر جانب بلندی سے آبشاریں گر رہی تھیں۔ ایک بڑی آبشار ہری پربت کے عین نیچے سے اُبل رہی تھی اور چٹانوں میں مزید شاخیں بنا رہی تھی۔ ہندوستان میں ایک ایسی ہی آبشار موجود ہے جسے "دُودھ ساگر" کہتے ہیں۔ چٹا کٹھا نالہ دائیں جانب کسی دیوار سے پھوٹ رہا تھا۔ اہلِ علاقہ کے مطابق چٹا کٹھا جھیل کے پانی اندر ہی اندر بہہ کر کافی نیچے پہنچتے ہیں اور آبشار کی صورت ابل پڑتے ہیں۔ جیسے جھیل سی آنکھیں تو اوپر ہوتی ہیں مگر زرخیز پانی نیچے سے ابلتے ہیں۔
اس کے بعد عبید نے کہا کہ بائیں جانب بلندی اختیار کرتے جائیں۔ اوپر پتھروں سے پار ہو کر اوپر ہی اوپر سے ہری پربت کے وسط تک جانا ہے.. یعنی آبشاروں سے بھی اوپر اوپر سے۔ مزید آگے وہ دائیں جانب جو کنارہ سا نظر آ رہا ہے اُس کے پار چٹا کٹھا جھیل ہے۔
یہ پیراگراف جو اتنی آسانی سے مَیں نے لکھ دیا ہے، اتنی آسانی ہمیں ہوئی نہیں۔ جیسے جیسے ہم مزید بلند ہو رہے تھے، گہرائی خطرناک حد تک گہری ہوتی چلی جا رہی تھی۔ ٹریک تو تھا ہی نہیں، بس ویسے ہی بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ پتھروں کے بعد تقریباً عمودی زاویہ بناتی ایک ایسی جگہ آئی جو غالباً ایک ہی پھسلن سے لبریز چٹان تھی۔ اُس پر پاؤں پھسلنے کا مطلب ہزاروں فٹ گہرائی میں بلا اشتعال گرنا تھا۔
ہم نے عبیدالرحمان کو گھوریاں ڈالنی شروع کر دیں کہ بھیا یقیناً یہ غلط راستہ ہے۔ چٹا کٹھا جھیل کی تصاویر میں تو ہم نے خواتین بھی دیکھی ہیں۔ وہ اس راستے سے نہیں آئی ہوں گی۔ عبید یعنی بطوطا نے ہامی بھر لی.. یعنی ہم لُٹے گئے۔ اب کیا ہو سکتا تھا، چلتے ہی رہے۔ ایک جگہ ہم اتنا بلند تھے کہ باقاعدہ درہ عبور کر کے پچھلی وادی میں داخل ہو سکتے تھے۔ انہی چٹانوں پر راستہ محض چند انچ چوڑا رہ گیا اور نیچے نہایت ہی میٹھی کھائی تھی۔ عبید نے کیپٹن اور مجھے نہایت مشکلات سے یہ حصہ عبور کرایا۔
دن ڈھلتا جا رہا تھا اور ہم ہری پربت کی گود میں سے گزر رہے تھے۔ بہت دور نیچے ڈَیک ٹُو کی بہکیں نظر آ رہی تھیں۔ میاں یاسین اور کاشف صاحب غائب ہو چکے تھے۔ بہت نشیب میں ہمیں دو سفید خیمے بھی نظر آئے۔ سامنے ہماری مطلوبہ بلندی کے پار کے-ٹُو نما وہ پربت نظر آ رہا تھا جو چٹا کٹھا جھیل کی ہر تصویر میں نظر آتا ہے.. اور یقیناً وہ ہری پربت نہیں ہے کیونکہ اس وقت ہری پربت تو ہم تھے۔
دیکھو یہ کِسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری
دیکُھوں یہ کسی اور کا چہرا ہے کہ تُم ہو
آخرکار ہم ہری پربت کے دوسرے حصے میں پہنچ گئے جس کے آگے ذرا سی بلندی کے پار جھیل تھی۔ مگر یہ بلندی کوئی ایسی واہیات بلندی تھی جو ختم ہونے میں نہ آ رہی تھی۔ دن ڈھلتا جا رہا تھا اور اندیشے بڑھ رہے تھے کہ کیا واپسی بھی ایسی ہی ہو گی اور کیا اندھیرے میں ہو گی!!..
•••
بہت دُور اوپر ہمیں دو شائبے نظر آئے جو اِدھر اُدھر چل پھر رہے تھے۔ یقیناً وہ میاں یاسین اور کاشف صاحب تھے۔ جب تک ہم اُن تک پہنچے، شام کے آثار شروع تھے۔
جتنا جلدی ممکن ہو سکا ہم فوراً جھیل تک پہنچے۔ شام ہو چکی تھی اور سردی بڑھ رہی تھی۔ اچانک جھیل کے پانی نظر آ گئے۔ ہم 2،800 میٹر سے شروع ہو کر ایک ہی دن میں 4،200 میٹر تک پہنچے تھے.. یعنی جھیل کی سطح سے بھی 100 میٹرز اوپر۔ یہ کافی زیادہ کلائمب تھی۔
یہ تو وہ مسکراتی جھیل نہ تھی جو ہم نے تصاویر میں دیکھی تھی۔ یہ تو سرمئی رنگ کی ایسی جھیل ہے جس کے پانی دہشت سے لبریز ہیں۔ پس منظر میں قطار در قطار برف پوش چوٹیاں صف باندھے کھڑی تھیں جیسے حملہ آور ہونے کو تیار ہوں۔ بالکل آرکٹِک ریجن کا ماحول تھا جہاں چھ مہینے رات ہوتی ہے۔
اچانک برف باری شروع ہو گئی اور ہماری مکمل ٹیم جھیل کا یہ دھشت ناک رُخ دیکھتے ہوئے بے حد حیرت زدہ تھی۔
ہاں..... دھشت اور خوف کے پار جو اَن ٹچڈ خوبصورتی ہوتی ہے وہ بے حد کائناتی ہوتی ہے.. جیسے موت کے پار جو اَن ٹچڈ منظر ہے وہ نظر آ جائے۔
سردی، برف باری اور نہایت تیزی سے طاری ہوتی رات نے ہمیں جھیل پر زیادہ دیر ٹھہرنے نہیں دیا.. ہم واپس مڑ گئے۔
ہم چند اُن ٹریکرز میں شامل ہو چکے ہیں جو ایک ہی دن میں کیل سے شروع ہو کر اِس بلند جھیل تک پہنچے.. مگر کیا قیمت ادا کر کے۔ آپ یہ سوال جہاں گردوں سے نہیں پوچھ سکتے جو تن من کی بازی لگا دینے والے ہوتے ہیں۔
•••
اب جھیل کے بعد ہمیں ایک سمندر کا سامنا تھا... تاریکی کے سمندر کا۔ اندھیرے میں راستے گُم ہو جایا کرتے ہیں۔ ہمارے پاس کھانے کا سامان تو کافی تھا مگر کیمپنگ کا سامان نہیں۔
آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا.. عبیدالرحمان راستہ بھول گیا.. ارض و افلاک مکمل طور پر اندھیرے میں ڈوب گئے.. اور ہم سَب حیرت زدہ اور دہشت زدہ کھڑے رہ گئے کہ اب کیا ہو گا۔
وہ وقت نہ آئے کہ دل زار بھی سوچے
اس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تُم ہو
ہاں مگر مَیں مُسافرِشَب™ ہُوں....... خوب جانتا ہوں کہ فطرت کی جانب سے دیے گئے اندھیرے بہت روشن ہوتے ہیں.. اُن سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ مَیں نے سب کو حوصلہ دیا کہ جو فطرت آپ کو پیدا کرتی ہے، اُس پر اعتبار رکھیے اور انتظار کیجیے۔
یہاں.. شاء کالی چٹا کٹھا جھیل کے قریب.. سیاہ ہو چکے ہری پربت کی آغوش میں جو نانگاپربت کا ہی ایک رُخ ہے.. ہم ایک کاجل کوٹھے پر تھے۔
جیسے کہتے ہیں کہ دوست دوست نہ رہا، پیار پیار نہ رہا، ایسے ہی چِٹا چِٹا نہ رہی اور ہری ہری نہ رہا.. سب کچھ پیا رنگ کالا ہو گیا.. اور ہم تاریکی کے بھید بھرے سمندر میں حیران و پریشان کھڑے تھے کہ جائیں تو جائیں کہاں، جو گھر رہیں کیا گھر رہیں، یار بن لگتا نہیں جی، کاش کہ ہم مر رہیں، کیا کریں، جاویں کہاں، گھر میں رہیں باہر رہیں۔
ناصر کاظمی کہتے ہیں کہ اِس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تُو کہاں، آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں۔ تو ہم اُسی گھر میں تھے جہاں شبِ فراق آ کر سما چکی تھی۔
~ عشق میں کچھ نظر نہیں آیا
~ جس طرف دیکھیے اندھیرا ہے
کہ گہرے بادلوں کی وجہ سے اوپر بھی نیچے ہی جیسا تھا.. اگر کائنات نظر آ جاتی تو پہاڑوں کے سیاہ شائبوں سے سمت کا اندازہ ہو جاتا۔
•••
دنیا میں ترقی کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ سمندروں جیسے اندھیروں میں برقی قمقموں اور ٹھمٹُھموں کے چھید ڈال کر روشن جزیرے بنا دیے جائیں اور پورے کے پورے ملک روشن کر دیے جائیں۔ لاشعوری طور پر انسان اندھیروں سے بہت ڈرتا ہے۔ جب کبھی آپ گئی رات بین الاقوامی فلائیٹ میں سفر کر رہے ہوں تو نیچے سمندر جیسے اندھیروں میں جو شہر جتنا زیادہ روشن جزیرہ نظر آتا ہے، وہ اُتنا ہی ترقی یافتہ کہلاتا ہے۔ تو انسان اندھیروں سے ڈرتا کیوں ہے؟ حالانکہ جذب و مستی کی انتہا میں یہی انسان اندھیرے ڈھونڈنے لگ جاتا ہے:
~ شبِ وصال ہے گُل کر دو اِن چراغوں کو
~ خُوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا
اور اِن اندھیروں کی وسعت کیا ہے.. چٹا کٹھا کالا کوٹھا سے شروع ہو کر آدھی کرہء ارض تک چند ہزار کلومیٹر کے سیاہ اندھیرے.. اس سے آگے سفر کلومیٹروں میں نہیں، وقت کی ڈائی-مینشن میں ہوتا ہے اور ہر سُو ابدی رات ہے۔
کرہ ارض کے بعد بین السیاراتی سیاہ خلا ہے جس میں روشنی کئی کئی مہینے سفر کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتی ہے۔ مزید آگے بین الستاراتی سیاہ خلا ہے جس میں سفر نُوری سال میں ہوتا ہے۔ پھر کہکشانی سیاہ خلا ہے جہاں سینکڑوں ہزاروں برس تک روشنی سفر کرتی ہے پھر کہیں ایک ستارے کی روشنی دوسرے ستارے تک پہنچتی ہے۔ پھر بین الکہکشانی سیاہ خلا ہے جہاں روشنیاں لاکھوں کروڑوں سال سفر کرتی ہیں مگر خلا کا یہ حصہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ پھر کائناتی سیاہ خلا ہے جہاں بعض روشنیاں کائنات کے آغاز سے سفر شروع کر چکی ہیں اور ابھی تک زمین پر یا کسی اور تھاں نہیں پہنچیں۔ اور اُس کے بعد.. کسی کو کچھ معلوم نہیں..... کائنات کے بعد کیا ہے؟ مجھ سے پوچھیں گے تو یہی کہوں گا کہ کائنات کے بعد کچھ نہیں۔ اگر کچھ ہے تو وہ بھی کائنات ہے.. ابدی کائنات.. اِدھر بھی اور اُدھر بھی۔ انہی وجوہات کی بنا پر مجھے مُسافرِشَب™ کہتے ہیں.. یہ زمین کی شَب نہیں، کائنات کی ابدی شَب ہے اور ہم سب مسافر ہائے شَب ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ روح زبردست مسافرِشَب ہوتی ہے۔ آپ کے اردگرد شدید اندھیرا، محبوب کی نرم گرم ہیجان انگیز گود ہے۔
مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی
مری سرشت میں ہے پاکی و درخشانی
تُو اے مسافرِشَب™! خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغ جگر سے نورانی
•••
ابھی مَیں خوف و ہراس اور زبردست اندیشوں کے باوجود اپنے اندرونی سفروں میں محو تھا کہ ایک آواز آئی:
"ہائے وے بطُوطیا......"
کیپٹن نادرہ نے عبید الرحمان ابنِ بطُوطا کو اپنی کیفیات سے آگاہ کیا۔ یعنی اظہارِ جلال کے لیے محض بطُوطا کہنا ہی کافی تھا۔ اور بطُوطا اُس وقت اِدھر اُدھر دَوڑ پج کر راستہ تلاش کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہے تھے۔ اس سے پہلے بھائی ملائشیا، تھائی لینڈ اور سعودی عرب میں بھی دوڑتے پجتے رہے ہیں۔ بلکہ ایک بار اِنہوں نے سعودی عرب جانا تھا مگر عین فلائیٹ کے وقت جب آپ کو بورڈنگ پاس لے کر جہاز میں جا بیٹھنا چاہیے تھا، آپ مجھے اور علی کامی ایشوریا کو اپنے ہمراہ لے کر کوٹلی ستیاں کی اُف ٹاپ سر کرنے چل پڑے۔ مَیں نے پوچھا "سر آپ کی فلائیٹ!"۔ بھائی نے کہا "جلدی کاہے کی ہے، پکڑ لُوں گا۔" اس بات کو تقریباً دو برس بِیت چکے ہیں۔
•••
تو اِس وقت کاجل کوٹھا کے اندھیروں میں راستہ ڈھونڈنے کے لیے وہ جہاں بھی جاتے، ہم سب اُن کے پیچھے چل پڑتے۔ ٹارچوں اور ہیڈلائٹس کی روشنیوں میں کچھ دُور پہنچ کر آشکار ہوتا کہ آگے روشنیوں میں بھی زمین نطر نہیں آ رہی، مطلب یہ کہ ہم کھائی کے کنارے پہنچ جاتے۔ بالکل ایسا محسوس ہوتا جیسے آپ سطح سمندر سے 300 میٹر اندر مکمل اندھیروں میں ہوں اور تاریک سمندری ڈھلوانوں پر ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہوں۔
آخرکار کیپٹن نادرہ تھک ہار کر ایک چٹان پر بیٹھ گئیں اور کہا کہ مَیں کہیں نہیں جا رہی۔ اُس وقت کسی کی بھی جانب سے حوصلہ مندی کے الفاظ اُلٹا اثر کر رہے تھے۔ میاں یاسین اور کاشف صاحب نے حوصلہ نہیں ہارا، مجھے اس چیز نے کافی حوصلہ دیا۔ مَیں اور عبید مل جل کر پہاڑیاں ٹاپتے رہے کہ کہیں راستہ ملے مگر ہر جانب ایک ہی جانب لگتی تھی۔ کافی نازک صورتحال تھی۔
•••
انہی ٹامک ٹوئیوں کے درمیان اچانک میرے وجدان پر افتخار عارف کی ایک آزاد غزل وارد ہوئی اور مَیں نے زیرِ تخیل گنگنانا شروع کر دیا:
میری زندگی میں بس اک کتاب ہے..
اِک چراغ ہے، ایک خواب ہے، اور تم ہو..
یہ کتاب و خواب کے درمیان جو منزلیں ہیں،
مَیں چاہتا تھا تمھارے ساتھ بسر کروں..
یہی کل اثاثہ زندگی ہے، اسی کو زادِ سفر کروں..
کسی اور سمت نظر کروں تو میری دعا میں اثر نہ ہو..
میرے دل کے جادہء خوش خبر پہ
بجز تمھارے کبھی کسی کا گزر نہ ہو..
میری زندگی میں بس اک کتاب ہے..
اِک چراغ ہے..
ایک خواب ہے..
اور تم ہو۔
ابھی مَیں اس غزل پر سوچ ہی رہا تھا کہ مَیں اور بطُوطا ایک پہاڑی عبور کر کے دوسری جانب پہنچے جس کے پار بھی ویسا ہی اندھیرا تھا جو اِس پار تھا.. مگر ایک نئی معلومات کا اضافہ ہو چکا تھا........ اور اصل بات ساری کی ساری وہی تھی۔
سیاہ سمندر میں نیچے ہمیں ایک روشنی نظر آ گئی جیسے کائنات کا آغاز ہوا ہو۔ فوراً سے پہلے دماغ نے کمپاس درست کر لیا کہ یہ ڈَیک ٹُو کیمپ کی روشنی ہے جہاں ڈسکور پاکستان کی ٹیم ٹھہری ہو گی.. کوئی اور ٹیم بھی ہو سکتی ہے مگر ہے یہ ڈَیک ٹُو ہی۔ یعنی اب ہم درست وادی کی جانب رخ کیے ہوئے تھے اور پگڈنڈی بھی اِدھر ہی ہونی چاہیے۔ اچانک روشنی کی جانب سے معلومات جاری ہو گئی۔ روشنی میں ہی ایس-او-ایس سگنل جاری ہو گئے.. مخصوص انداز میں روشنی کا جلنا بھجنا۔ یعنی ڈَیک ٹُو کو اطلاع ہو چکی تھی کہ ایک بطُوطوی ٹیم بلندیوں پر بھٹک رہی ہے۔ ہم نے بھی ایس-او-ایس سگنل جاری کیا۔ یوں، ایس-کوم یا کسی بھی نیٹ ورک کے بغیر محض موبائل ٹارچوں سے اس کمیونیکیشن نے دل کو اتنا سکون پہنچایا کہ جتنا لیٹ نائیٹ عاشق و محبوب واٹس ایپ پر باتصویر کمیونیکیشن کرتے ہیں.. بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ۔
~ شہر کے اندھیرے کو اِک چراغ کافی ہے
~ سو چراغ جلتے ہیں اک چراغ جلنے سے
یقیناً اس بار بطُوطا کو وہ پگڈنڈی مل گئی جو دھیرے دھیرے نیچے کی جانب جا رہی تھی۔ اُس پگڈنڈی پر پڑے ہوئے چپس کے چند لفافے اور ببل گم کے ریپرز ہمیں اتنے پیارے لگے کہ ہم اُٹھا کر چُوم سکتے تھے۔ ایک ریپر تو مَیں بطور تبرک اپنے ہمراہ بھی لے آیا ہوں۔ خبردار کسی نے ان علاقوں میں صفائی مہم کی۔ شکریہ۔
اور ہاں، اُس سیاہ سمندر میں اُس راستے پر چلتے ہوئے محسوس ہوا کہ جیسے کسی فطرت کے موسیٰ نے اپنے عصا سے سیاہ سمندر میں راستہ بنا دیا ہے اور ہم بنی اسرائیل کی مانند اس پر چلتے جا رہے ہیں۔ تو کیا پار اُتر کر ہم گائے گدھے پُوجنا شروع کر دیں گے یا موسیٰ سے وفادار رہیں گے؟ کیا جہاں گرد اپنی فطرت سے باز آتے ہیں؟
•••
اب آگے جتنا بھی راستہ تھا.. پگڈنڈی موجود تھی اور ہم طے کرتے چلے جا رہے تھے۔ چونکہ مَیں اس پورشن کی تصاویر دیکھ چکا تھا اس لیے جانتا تھا کہ یہ پگڈنڈیاں بھی گہری کھائیوں پر معلق ہیں مگر کھائی نظر نہیں آ رہی تھی۔ ہم تو خود ہرسُو طاری ایک کائناتی کھائی میں چل رہے تھے جیسے بلیک ہول ہوتا ہے۔
ایک موڑ آیا اور پگڈنڈی نے نیچے جاتے ہوئے اُسی جانب رخ کر لیا جس جانب سے ہم آئے تھے۔ یہی نیچرل تھا، تبھی تو ہم زِگ زَیگ کرتے نیچے پہنچ پاتے۔ اس موڑ پر ہمیں ایک اور روشنی نظر آ گئی جو ڈَیک ٹُو کے مقابلے میں قریب تر تھی۔ غالباً یہ وہی دو سفید خیمے تھے جو ڈَیک ٹُو سے آگے وادی کے اختتام کے قریب تھے۔ وہاں سے بھی ایس-او-ایس سگنل جاری ہو گیا۔ پوری وادی کو ایک دوسرے کی خبر ہو چکی تھی۔ واہ، کیا کیفیات تھیں۔ جو سیاہ سمندر تھا، اتنا ہی کیفیات کا سمندر تھا۔
•••
چند ایک مزید خطرناک پھسلواں موڑ کاٹنے کے بعد ایک اور معلومات کا اضافہ ہوا.. جیسے قبر کے اندھیرے میں نئی سے نئی معلومات مل رہی ہوں.. اب کی بار معلومات کا تعلق روشنی سے نہ تھا، آواز سے تھا۔ آبشار کی آواز آنے لگی جو رفتہ رفتہ تیز تر ہوتی چلی جا رہی تھی کیونکہ ہم اُسی جانب جا رہے تھے۔ آبشار کی آواز سے پردہء ذہن پر محبوب کے خدوخال بنتے چلے جا رہے تھے۔ کیا دلفریب آواز تھی.. اور وہ آواز باقاعدہ راستہ دکھا رہی تھی.. ہمیں بتا رہی تھی کہ ہم اس وقت کہاں ہیں۔ جب آواز اپنی انتہا پر تھی ہم تب بھی آبشار نہ دیکھ سکے مگر بہت کچھ دیکھ گئے۔ اس ان دیکھی آبشار کے لیے ایک بار پھر ایسا سفر جائز ٹھہرتا ہے۔
•••
تھکاوٹ کے مارے سبھی کی حالت پتلی تھی مگر شکر ہے کہ ہم نیچے جا رہے تھے، اوپر جانے کی ہمت نہیں تھی۔ اوپر جا رہے ہوتے تو غلط جا رہے ہوتے۔
آخرکار زِگ زَیگ ختم ہوئے۔ روشنیاں بتا رہی تھیں کہ ہم کافی نیچے آ چکے ہیں اور لٹکنے والی ڈھلوانیں عبور کر چکے ہیں۔ آگے پتھریلا راستہ تھا جہاں ٹریک زگ زَیگ نہیں بنا رہا تھا بلکہ سیدھا نیچے کی جانب اتر رہا تھا۔ یعنی وادی کی گہرائی قریب ہی تھی۔
یہاں ہمیں ایک اور آواز آنا شروع ہوئی۔ آبشار کی آواز نہیں تھی، بہتے پانی کی آواز تھی.. یعنی چٹا کٹھا نالہ کافی قریب آ چکا تھا۔ میری بائیں آنکھ پھڑکنے لگی.. جانے کیوں۔
ٹیم کو زبردست بھوک لگ رہی تھی۔ کاشف صاحب نے بہت عرصے بعد دوپہر کا کھانا مِس کیا تھا۔ میاں یاسین کو نیند کے جھٹکے لگ رہے تھے۔ کیپٹن کے مسلز مسائلز کا شکار تھے۔
فیصلہ ہوا کہ چکن سالن گرم کر کے روٹیوں کے ساتھ کھا لیا جائے۔ مگر ہمیں لکڑیاں نہیں مل رہی تھیں.. لڑکیاں تو دُور کی بات ہے۔ کافی دیر کے بعد آخرکار ایک مخصوص قسم کا پودا شروع ہوا جسے جلایا جا سکتا تھا۔ عبید کی نشاندہی پر ہم نے اس پودے کو پُوٹنا شروع کر دیا۔ جب پودے کافی تعداد میں پُوٹے گئے تو ایک بڑے پتھر کے پیچھے انہیں ڈال کر ہم نے مٹی کا تیل چھڑکا جو ہم چند چھٹانک ساتھ لائے تھے۔ لائیٹر کے ذریعے آگ جلائی اور فرائنگ پین پر سالن ڈال کر گرم کیا۔ اس وقت سرد ہوا بھی چلنا شروع ہو گئی تھی۔ شکر ہے کہ بارش نہیں ہوئی ورنہ کام کافی خراب ہو جاتا۔
اس آگ پر سالن گرم کرتے ہوئے جو حدت آ رہی تھی وہ محبوب کی گرم آغوش جیسی تھی۔ ہمارے حواس بہت تیز ہو چکے تھے.. عام حالات کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ہمیں کائناتی مزے دے رہی تھیں۔ ہائے وہ آگ.. جیسے موسیٰ علیہ السلام نے مقدس وادئ طویٰ میں آگ جلائی تھی... اور پھر ایک کائناتی آگ لے کر آ گئے.... وہ آگ پکارتی تھی.. اے موسیٰ، یہ مَیں ہُوں... یہ مَیں ہُوں... مَیں.... بس مَیں ہی مَیں ہُوں.....
کھانے کے حوصلے سے فارغ ہو کر ہم مزید آگے بڑھے۔ کھانا تو کھایا ہی نہ گیا.. سب نے ہلکی پھلکی داڑھ ہی گیلی کی تھی.. یہ بھی کافی تھا۔ کیپٹن تو تقریباً بے ہوش ہی تھیں، بس آگ کے پاس پڑی رہیں۔
•••
ڈَیک ٹُو کی روشنی میں سے ایک روشنی الگ ہوئی اور ہماری جانب بڑھنا شروع ہوئی۔ ہم بھی اُسی جانب بڑھ رہے تھے۔
آدھے گھنٹے بعد جب ہم وادی کی نچلی سطح پر پہنچے تو وہ روشنی ہمارے قریب آ چکی تھی۔ سرچ لائیٹ کی روشنی میں ہمیں ایک چہرا نظر آیا جس پر بلندیوں کی چھاپ تھی۔
"مَیں حسن بلتستانی ہوں۔ ڈسکور پاکستان کی ٹیموں کے ساتھ جاتا ہوں۔ مجھے عمر بھائی نے واکی ٹاکی پر پیغام دیا تھا کہ آپ لوگوں کو ریسکیو کرنا ہے۔ یہ لیں روٹی اور اچار کھا لیں۔ پھر کیمپ میں چلتے ہیں۔ آپ کے لیے بون فائر جلائی ہوئی ہے۔ سونے کا انتظام بھی کر دیں گے۔" ہائے حسن بھائی کتنے پیارے لگے، آپ جب تک خود اس تجربہ سے نہیں گزریں گے، آپ کو معلوم نہیں ہو سکتا کہ سچا پیار کیا ہوتا ہے۔
•••
ہم نے کھانا نہ کھایا بلکہ عرض کی کہ بس ہمیں کیمپوں میں لے چلیے۔
چلتے ہوئے حسن بھائی نے کہا "آپ کے لیے ایک خوش خبری ہے"۔ اب ہم ہر خوش خبری کے لیے تیار تھے اور ہمہ تن خرگوش تھے۔
"ابھی ہم چٹا کٹھا نالہ کراس کریں گے.. واہ وا۔"
"ہائیں... یہ خوش خبری ہے حسن بھائی؟" میری بائیں آنکھ مزید پھڑکی۔
"جی آ..." جواب ملا۔
عبید بولا "حسن بھائی یہاں لکڑی کا ایک پُل بھی تو تھا۔"
"وہ تو کب کا اکھیڑا جا چکا ہے۔"
کیا یہ زبردست مزاق تھا.. بالکل نہیں۔ مَیں نے غور کیا کہ حسن بھائی نے ٹراؤزر اوپر کی جانب مروڑی ہوئی تھی اور اُن کی ٹانگیں کافی گیلی تھیں۔ بہرحال کیا کِیا جا سکتا تھا۔
کچھ دیر چلے تو وہ دو خیمے بھی قریب آ گئے جن کی روشنی ہمیں بعد میں نظر آئی تھی۔ وہاں دو لوگ تھے جو کسی بڑی کمپنی میں آفیسرز تھے۔ اُن میں سے ایک صاحب ہمارے قریب آ گئے۔ ہم نے ایس-او-ایس سگنلز کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے آفر دی کہ اپنی کیپٹن کو یہاں دے جائیے ہم انہیں ایک خیمے میں سُلا دیں گے۔ باقی مرد حضرات کھیلیں کُودیں۔ ظاہر ہے ہمیں یہ کیسے گوارا ہو سکتا تھا کہ ہم اپنی اتنی قیمتی کیپٹن انہیں دے کر ڈَیک ٹُو چلے جاتے.. اگرچہ اُن صاحبان کی نیت درست اور رحمدلانہ تھی۔
اس دوران میاں یاسین بڑبڑائے "ہائے وے بطُوطیا... یہ کیا کروا دیا۔ ڈسکور پاکستان نے اپنے کمپیٹیٹر دی-ٹریکرز کو ریسکیو کیا ہے.. بیستی جئی ہو گئی اے۔"
"سر، اس وقت آپ دی-ٹریکرز کی حیثیت میں یہاں نہیں۔ فرینڈز ٹوؤرز میں ہیں۔ اور فرینڈز آپس میں یہی کرتے ہیں۔ ریلیکس کریں۔"
•••
کچھ دیر میں نالہ کی آواز اتنی بڑھ گئی کہ
~ کرتے ہیں خطاب آخر، اُٹھتے ہیں حجاب آخر
~ افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
ایک اندھیری شَب میں تیز رفتار اور کافی چوڑا، برزخ نما نالہ.. ذرا سوچیے۔ حسن بھائی نے کیپٹن کو کندھے پر سوار کیا اور دھیرے دھیرے نالہ عبور کر گئے۔
بقیہ ہم چار بظاہر خود کو کوستے ہوئے مگر اندر سے خوش باش جہاں گردوں نے جوتے جرابیں وغیرہ اتارے اور ٹراؤزر اوپر مروڑے۔ البتہ مَیں نے جرابیں نہیں اتاریں کیونکہ مَیں اپنے آپ کو حوصلہ دینا چاہتا تھا کہ مَیں نہا تو نہیں رہا۔ اس کے بعد ہم تاریکی کے سمندر میں ہی اِک دریا میں اتر گئے۔ پانی کا پریشر بہت زیادہ تھا اور یخ پانی گھٹنوں تک آ رہا تھا۔ عین درمیان میں میرے جامنی ٹراؤزر کے مروڑ کھل گئے۔ سرد پانی کے تھپیڑے تو کم ہو گئے مگر ٹراؤزر گیلے ہو گئے۔ اندر ہر شے سُن ہو گئی.. مَیں تقریباً ناصر جان خان یا نعمان خان ہو گیا۔
پار اتر کر مَیں ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہوا۔ پورے دن کی تھکن اور پریشانیاں غائب ہو چکی تھیں۔ دل خوشیوں سے بھر گیا۔ جانے کہاں سے طاقت عود آئی۔ مجھے ابھی تک بڑی حیرت ہے۔ محبوب کے پانیوں میں اتنی انرجی تھی۔ یہ وہی پانی ہیں جو جھیل کی آنکھوں کی بجائے نیچے چٹانوں کے اندھیروں سے ابلتے ہیں۔
•••
نالہ عبور کرنے کے بعد ڈَیک ٹُو ابھی نزدیک نہ تھی۔ دو سو میٹر چڑھائی بھی چڑھنا تھی جو ہم چڑھتے چڑھتے آخرکار چڑھ ہی گئے۔ اوپر خیموں کی بجائے ایک بہک کے قریب کافی ساری ٹارچوں والے لوگ کھڑے تھے۔ ایک لمحہ کو محسوس ہوا جیسے فوت ہونے کے بعد "اُس پار" اسی طرح روحوں کا استقبال ہوتا ہے۔
اور یہ شدید روشنیاں.. اتنی زیادہ روشنیاں... جیسے بندرگاہ میں جہازوں اور کشتیوں کی روشنیاں ہوں.. اتنی زیادہ روشنیوں کی ضرورت نہ تھی:
~ اندھیروں کو نکالا جا رہا ہے
~ مگر گھر سے اجالا جا رہا ہے
•••
گرما گرم بہک کے اندر بون فائر پر چائے پکاتی ڈسکور پاکستان کی ٹیم موجود تھی جو ہمارا ہر ممکن طریقے سے خیال رکھ رہی تھی۔ سب مرد ہی تھے۔ پتھروں سے بنی بہک کی چھت دیودار لکڑی کے تختے اور مٹی کے لیپ سے تیار شدہ تھی۔ اس بہک میں دو بڑے کمرے تھے۔ پچھلے کمرے میں لکڑیوں کا ڈھیر تھا اور یقیناً چرواہوں نے زیرِ زمین آلو بھی سٹور کیے ہوئے تھے۔ وہاں جانور بھی رکھے جاتے ہیں۔ آجکل چرواہے یہ بہکیں چھوڑ کر نیچے جا چکے ہیں اور اس لیے ہم ٹریکرز کیمپس لگانے کی بجائے انہی فائیو سٹار بہکوں کو استعمال کر لیتے ہیں۔ اگر ہم نے پلان کے مطابق رات گزارنی ہوتی تو انہی بہکوں میں سے ایک میں ٹھہر جاتے۔ ہمیں ابو البطُوطا محترم شفیق شاہ نے بتایا تھا۔
عمر بھائی نے ہم سب کو آگ کے قریب بٹھایا اور ایک ایک کپ چائے سب کو دی... پھر کہنے لگے:
"آپ لوگ جب یہاں ٹھہرنے کی بجائے اوپر چلے گئے تو ہم جان چکے تھے کہ آپ کو ریسکیو کرنا پڑے گا۔ شکر کریں کہ ہم ڈَیک وَن کی بجائے ڈَیک ٹُو میں آن ٹھہرے ورنہ آپ کو ہماری روشنیاں نظر نہ آتیں۔ ڈَیک وَن ذرا اوٹ میں ہو جاتی ہے۔"
واقعی.. کائنات کی جانب سے زبردست مدد ہوئی ورنہ کام کافی خراب ہو جاتا۔ وہ تو ہم ملکی سیاسی و مذہبی حالات کے مارے ہوئے لوگ ہیں.. کچھ مسافرِ شَب ہیں.. اسی لیے آزمائشوں کی کافی ٹریننگ لی ہوئی ہے ورنہ سیاہ سمندر ہمیں کہیں کا نہ چھوڑتا۔
ویسے اِن اندھیروں کی دہشت بہت زیادہ ہوتی ہے، اتنے خطرناک ہوتے نہیں۔ خطرہ صرف اُس وقت ہوتا ہے جب انسان کو انسان سے خطرہ ہو۔ کسی کو کیا معلوم کہ مکڑا ٹاپ کی دھند میں اچانک کسی جانب سے پردہ پوش ڈاکو کی بندوق کن پٹی پر محسوس ہو تو کتنا خطرہ ہو جاتا ہے۔
•••
عمر بھائی نے کیپٹن کے لیے ایک بستر تیار کروایا۔ ذرا ماحول چیک کیجیے گا۔ پتھروں کی باؤنڈری بنا کر اندر گھاس ڈال کر اُس پر سلیپنگ بچھایا گیا۔ جگہ کافی زیادہ تھی اس لیے مَیں بھی قریب ہی گھاس پر لیٹ گیا۔ بون فائر جل رہا تھا اور اُس کی تپش پورے ہال کو گرم کر چکی تھی۔ پورا ہال جہاں گردوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میرا ٹراؤزر گیلا ہونے کے باعث مجھے بار بار اٹھ کر بون فائر سے شرمناک حد تک قریب ہونا پڑ رہا تھا۔
ہم مرد حضرات آگ کے قریب جیکٹوں سویٹروں میں سو رہے۔۔ البتہ عمر بھائی نے خصوصی طور پر میاں یاسین کو اپنے ساتھ سلایا۔ اب ڈر ہے کہ میاں یاسین فرید گجر بھائی کو چھوڑ کر ڈسکور پاکستان میں نہ آ جاویں۔ دیکھتے ہیں مستقبل میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
•••
صبح ڈسکور پاکستان ٹیم نے ناشتا کیا جو حسن بھائی نے انہیں اپنے ہاتھوں سے بنا کر دیا۔ پھر وہ سب چٹا کٹھا کے لیے نکل گئے۔ اس کے بعد حسن بھائی نے ہمیں بھی آملیٹ بنا کر دیے اور سامان پیک کر کے خود بھی ٹیم کے پیچھے نکل گئے۔
ہمارے پاس سوائے نیک خواہشات کے، عمر بھائی اور حسن بھائی کو دینے کے لیے کچھ نہ تھا۔ ان حالات میں اپنے محسنوں کو کچھ آفر کرنا زبردست بے غیرتی کے زمرے میں آتا ہے۔ البتہ ہمارا وعدہ ہے کہ جب کبھی آپ بطوطے کو اپنے ہمراہ لے کر گئے تو ہم بھی آپ کو ریسکیو کریں گے۔
•••
صبح.... ہری پربت کے پیچھے سے سورج کی کرنیں نہایت خوبصورت زاویہ بنا رہی تھیں۔
مَیں قضائے حاجت کے لیے بہکوں سے پیچھے چلا گیا اور بیٹھ گیا۔ جب ابھی میں نصف عمل میں ہی تھا کہ محسوس ہوا کہ کچھ غلطی ہو گئی ہے۔ مَیں بالکل عین کھائی کے کنارے پر بیٹھا ہوا تھا۔ ذرا سا لڑھکتا تو اعمال ساکت ہو جاتے۔ لہذا بقیہ عمل موقوف کر کے واپس آ گیا۔
•••
اب ہمارا سفر دوبارہ شروع ہوا اور ڈیڑھ گھنٹے میں ہم نیچے شونٹر نالہ کے پاس پُل پر پہنچ چکے تھے۔ ایک "ڈز" کی آواز آئی اور پوری وادی دہل گئی۔ ننگی ماہلی میں سے روبیاں نکل رہی تھیں۔
آگے بیس منٹ لگا کر ہم سڑک اور کیمپ سائیٹ میں آ گئے۔ کاشف صاحب ہم سے پہلے پہنچ کر ٹائر وغیرہ کا انتظام کر رہے تھے مگر آخرکار انہوں نے کہہ دیا کہ انکار ہی سمجھیں۔ دوسری جیپ کا انتظار کرنا پڑے گا۔
اس علاقہ میں ٹرانسپورٹ ملنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہمارا پلان تھا کہ ہم آج ہی ارنگ کیل وزٹ کریں گے مگر ڈھائی گھنٹے بعد ہمیں ایک جیپ ملی جو آلو لے کر کیل جا رہی تھی۔
جیپ ڈرائیور بڑا ہی مزاحیہ تھا.. ہر جگہ سٹاپ پر ماحول مزید "آلو-دا" ہو جاتا تھا۔ اس کا ساتھی چھت پر بیٹھا تھا اور ہر تھوڑی دیر بعد پھدکتی جیپ میں ہی اُس کا سر کبھی کھڑکی پر آ جاتا اور کبھی ونڈ سکرین پر۔ سب سے زیادہ مزہ ساؤنڈ سسٹم نے دیا جو پیپنی جیسی آواز نکال رہا تھا۔
کیل پہنچتے پہنچتے شام ہو گئی.. لہذا ہم واپس روئل گیسٹ ہاؤس میں منتقل ہو گئے۔ مَیں نے ایک گزارش کی کہ اگر ہم چاہیں تو ابھی دواریاں کے لیے نکل سکتے ہیں۔ شب وہاں ٹھہر کر کل رتی گلی جھیل کر لیں گے، پھر اسلام آباد نکل لیں گے۔ مگر فیصلہ یہی ہوا کہ مہم اتنی بھی بُری نہیں رہی.... رتی گلی پھر سہی۔
•••
اگلے دن صبح 7.30 پر ہم نے "اے-جے-کے ٹوؤرازم اینڈ آرکیالوجی" والے لوج کی پارکنگ میں غزال کو پارک کیا۔ کافی دیر بحث کے بعد نتیجہ نکلا کہ ٹوؤرازم والے اپنی املاک کا خیال نہیں رکھتے اسی لیے وہ املاک کھنڈرات میں بدل جاتی ہیں.. اسی لیے آرکیالوجی کو بھی ساتھ ہی شامل کر لیا گیا ہے.. وقت بچانے کے لیے۔
لوج کے قریب 2-منٹ والی ڈولی میں بیٹھ کر بائے ایئر ارنگ کیل کی پہاڑی تک پہنچے اور آدھا گھنٹہ کی ٹریکنگ کر کے ارنگ کیل میں داخل ہو گئے۔ ویسے تو 25 منٹ میں پہنچے۔ 5 اضافی منٹ مَیں نے عورتوں، بیماروں، یتیموں اور مساکین کے لیے بڑھا دیے ہیں۔
عین پیچھے، شونٹر کی جانب "سروالی پِیک" ایک ماڈل کی مانند نظر آ رہی تھی۔ مَیں نے دل ہی دل میں فاتحہ پڑھی.. اللہ عمران جنیدی، خرم راجپوت اور عثمان طارق کو جنت میں بھی یہی چوٹیاں نصیب کرے۔
ارنگ کیل کے پس منظر میں جو کیل کا پہاڑ اور خوابناک جنگل ہے.. اُس کی دلکشی لاجواب ہے۔ مزید یہ کہ رولنگ ہلز پر جو روایتی گھر بنے ہوئے ہیں، وہ خوبصورتی میں بہت اضافہ کرتے ہیں۔ یہاں کافی سارے ہوٹلز ہیں۔ یہ جگہ تین چار دن ٹھہرنے کی متقاضی ہے۔
ایک جگہ کالا شاء گدھا کھڑا تھا۔ میاں جی اُس کے سامنے بیٹھ کر سوچوں میں گُم ہو گئے۔ وجوہات معلوم نہ ہو سکیں۔
•••
مسک ڈیئر ہوٹل سے آگے ایک وسیع سرسبز علاقہ ہے، وہاں ہم نے کافی فوٹوگرافی کی۔ بڑا ہی شاندار موسم تھا۔ وہیں ایک کالا سا بُوچا کُتا ہمارے پیچھے لگ گیا۔ وہ کتا واقعی بہت پیارا تھا.. بلکہ مَیں نے اُسے رج کر پیار کیا۔ کالے گدھے کی طرح وہ کالا بُوچا کتا بھی میاں جی پر پیار بھری نظر رکھے ہوئے تھا۔
•••
ایک قبرستان تھا...
ایک قبر تھی جس کا فریم آرمی کے رنگ لیے ہوئے تھا..
اس قبر میں سے پاکستان کا جھنڈا بلند ہو رہا تھا..
کوئی طاقت تھی جو مجھے اُس کی جانب کھینچ رہی تھی...
جب مَیں قریب پہنچا تو دیکھا کہ شہید کے کتبے پر 119 لکھا ہوا تھا... مَیں نے کہا "شکریہ سَر...."
•••
شاردہ میں شرّدھا دیوی کے مندر کو سلام کرنے کے بعد بطُوطا کے ایک اور انکل محترم ضیاء الرحمان قریشی صاحب کی کیمسٹ والی دکان پر ہم نے چائے کے ہمراہ کشمیرے کلچے کھائے اور شکریہ ادا کیا۔ محترم جماعتِ اسلامی ضلع نیلم کے سیکریٹری ہیں۔ ان سے ملاقات بہت اچھی رہی۔
•••
شَب کے کسی پہر ہم پنڈی ڈیوو ٹرمینل کی سیٹوں پر بیٹھ کر ٹی-بیگز والی چائے پی رہے تھے۔
چہل پہل اچھی تھی... مگر مَیں نے پہل ہرگز نہ کی تھی۔
(ختم شُد) اب ہم انتظار کر رہے تھے کہ آگے کیا ہو۔
مہم : چٹا کٹھا جھیل، وادئ شونٹر، کشمیر
بلن دی : 4100 میٹرز
زمانہ : 23 تا 26 ستمبر 2017 خزاں رُت شمال
ٹیم : کیپٹن نادرہ ملک، میاں یاسین، عبید الرحمان بطوطا، کاشف کیلوی اور مُسافرِشَب™
خصوصی اینٹری بصد شکریہ : ڈِسکور پاکستان کی ٹیم اور لیڈر محمد عمر صاحب
مزید شدید شکریہ : حسن بلتستانی
•••
پھرتے ہیں کب سے دربدر
اب اِس نگر اب اُس نگر
اک دوسرے کے ہمسفر
مَیں اور میری آوارگی
ویسے تو مجھ جیسے لوگ شدید گھومے ہوئے ہوتے ہیں مگر آئیے آپ کو اِن آوارگیوں کی کچھ مزید وجوہات بطاؤں۔ ابھی ایک آدھ دن قبل یہ مکالمہ پیش آیا:-
"سُنو"
"جی"
"جب تم چلے گئے تو مَیں بہت روئی"
"وہ کیوں؟.. اتنا یاد آیا؟"
"ہاں... پرسوں کمرے میں چھپکلی آ گئی تھی اور اُسے مار بھگانے والا کوئی نہیں تھا"
"اوہ... سو ہارٹ بریکنگ..."
"کَل تو مَیں زیادہ روئی"
"کیوں؟"
"کَل والی چھپکلی بہت موٹی تھی"
"یار یہ تُم خواتین کا آپس کا معاملہ ہے، کسی طرح خود ہی حل کر لیا کرو.."
اب مجھے بتائیے کہ بندہ چھپلی کِلر بن کر زندگی گزار دے؟ اسی قسم کی وجوہات ہوتی ہیں جب مجھ جیسے لوگ آوارہ ہوتے ہیں۔۔ میرا مطلب ہے کہ آوارہ گردیاں شروع کرتے ہیں.. ٹریکنگ وغیرہ۔
•••
یہ کیسا نام ہے "چٹا کٹھا".. جیسے سفید رنگ کی ڈھیری وغیرہ ہو۔ کچھ عجیب سا نام ہے۔ جیسے حامد ناصر چٹھا ہو۔ اس کے مقابلے میں "رتی گلی" نام کتنا خوبصورت ہے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے اُس کا جس نے رتی گلی کو "برکاتیہ جھیل" کہنا شروع کر دیا، تب دل اتنا خراب ہوا کہ مَیں چِٹا کٹھا نامی جھیل کے لیے تیار ہو گیا.. یہ نام برکاتیہ کے مقابلے میں قابلِ قبول تھا۔
•••
ہوا کچھ یوں کہ کیپٹن نادرہ اوف ملتان نے تجویذ پیش کی کہ 23 سے 26 ستمبر کی شب تک اُن کو چھٹیاں ہیں اس لیے اِن چار دنوں میں اُنہیں چِٹا کٹھا جھیل اور رتی گلی جھیل دونوں چاہئیں.. بلکہ ارنگ کیل بھی چھڑک لیں۔ کیپٹن نادرہ معمولی ٹریکر ہرگز نہیں.. کنکورڈیا، گوندوگورو لا، مشابروم بیس کیمپ اور نِیم برف آلود مکڑا ٹاپ کے علاوہ ڈونگاگلی پائپ لائن ٹریک بھی کر چکی ہیں بوتھ ویز، جی آں۔
مَیں نے کہا کہ چونکہ مجھے چِٹا کٹھا کا تجربہ نہیں اس لیے پہلے تحقیق کروں گا کہ یہ ایک دن میں ممکن ہے بھی یا نہیں.. مزید یہ کہ چٹا کٹھا ایگزیکٹلی ہے کدھر۔ اتنے کم وقت میں اتنا کچھ تبھی کیا جا سکتا ہے جب کسی بھی منزل میں ایک دن سے زیادہ خرچا نہ آئے۔ مَیں نے قراقرم کلب پیج پر ایک پوسٹ کر کے دھو دی کہ براہِ مہربانی چٹا کٹھا کی تفصیل بتائی جائے۔ اُس پوسٹ پر ہونے والی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ چٹا کٹھا یک روزہ بالکل بھی ممکن نہیں کیونکہ کیل سے ٹریک کے آغاز تک جیپ پر ڈھائی گھنٹے لگتے ہیں۔ ٹریک کے آغاز سے لے کر آخر تک مسلسل چڑھائیاں ساہ بھی نہیں لینے دیتیں.. یعنی کیل ٹُو کیل کم از کم دو دِن چاہئیں.. لیکن آسانی کے لیے تین دِن رکھنے چاہئیں۔ لہذا ہم نے رتی گلی کو وقتی طور پر پلان میں سے نکال باہر کر دیا.. یا رتی گلی نے ہمیں نکال باہر کر دیا۔
اس کے بعد ایک مسئلہ پیدا ہو گیا.. مبارک ہو مبارک ہو۔ مسئلہ یہ تھا کہ چٹا کٹھا کے لیے ٹیم کیسے بنے گی؟ تُسی احباب میرے پلانز میں جانا جو بند ہو گئے ہو۔ کیپٹن نادرہ نے کسی طرح میاں یاسین بھائی کو تیار کر لیا۔ مَیں نے کیپٹن نادرہ کو بہت سمجھایا کہ چٹا کٹھا کے متعلق معلومات ملی ہے کہ یہ شکرپڑیاں ٹاپ، چڑیاگھر سے دامنِ کوہ ٹریک اور مکشپوری ٹریک سے ذرا زیادہ ٹف ہے.. میاں یاسین تھک نہ جائیں۔ کیپٹن نے مجھے یاد دلایا کہ میاں یاسین ماؤنٹ ایورسٹ بیس کیمپ کے علاوہ پاکستان کی ہزاروں میٹر بلند چوٹیاں فتح اور درے عبور کر چکے ہیں اور "دی ٹریکرز" کمپنی کے اہم ترین ٹوؤر لیڈرز میں سے ہیں.. ایک بار تو انہوں نے ہمت کر کے میرانجانی ٹاپ بھی سر کر لیا تھا۔ یقیناً میاں جی مکشپوری سے ذرا ٹف ٹریک ہینڈل کر ہی لیں گے۔ مَیں نے شکوک و شبہات کے ہمراہ اوکے کر دیا۔
قراقرم کلب کی اُسی پوسٹ پر میرے دوست "عبیدالرحمان" اور شاعرِ شمال قریب "عاقب شفیق" کے والد محترم شفیق شاہ نے کومنٹ کیا کہ ایک دن میں ہرگز مت کیجیے گا بلکہ میرے بطوطے کو بھی ساتھ لے جائیے، یہ گائیڈ کر دے گا کیونکہ پہلے بھی کئی بار جا چکا ہے۔ انہوں نے بطوطے کو بطوطا تو نہیں کہا مگر مَیں جانتا تھا کہ کِس بطوطے کا ذکر ہو رہا تھا۔ یہ عبیدالرحمان کی جانب اشارہ تھا جو ابنِ بطوطا کی مانند زبردست جہاں گرد ہیں۔ مَیں انہیں شیخ العجائب بھی مخاطب کرتا ہوں۔ المختصر یوں سمجھیں کہ بھائی کی زندگی کا مقصد ہی ہر جگہ پہنچ کر بلیو وہیل کی آخری والی شرط پوری کرنا ہے۔
یوں 23 ستمبر کی صبح میاں جی کو فیض آباد اور کیپٹن جی کو ڈیوو ٹرمینل اسلام آباد سے پِک کر کے بذریعہ غزال جیپ اور براستہ مری بھوربن، مظفرآباد کے لیے روانہ ہو گیا۔ جمہوریت اور آمریت نہایت پرامن طریقے سے سفر کرتے رہے حالانکہ مجھے ڈر لگا رہا کہ کسی جانب سے بغاوت نہ ہو جائے۔
ابھی ہم نے بھارہ کہو کراس کیا ہی تھا کہ فوراً پھڑے گئے۔ ہمیں پولیس چوکی پر روک لیا گیا۔ مَیں نے کیپٹن نادرہ کو اسی لیے فرنٹ سیٹ پر بٹھایا تھا تاکہ وومین-کارڈ کے ذریعے ہم پر چوکیاں کھلتی جائیں۔ شاید پولیس بھائی کو وومین-کارڈ نظر ہی نہ آیا.. کیپٹن نے ذرا پی-کیپ پہنی ہوئی تھی.. ویسے بھی وہ حلقہء ارادت میں "پاین" مشہور ہیں۔ پولیس نے پہلے تو گاڑی کے کاغذات، میرا شناختی کارڈ اور حسینوں کے خطوط دیکھے، پھر جیپ کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ننھے مُنے راہی کی جانب اشارہ کر کے کہا کہ یہ بندہ کون ہے۔ مَیں نے کہا کہ میاں جی ہیں۔ پھر اُس نے کہا کہ لڑکی کا شناختی کارڈ دکھاؤ۔ جیسے ہی پولیس بھائی نے آرمی کا کارڈ دیکھا تو فوراً کہا، یار پہلے دکھا دیتے.. چلو دوڑو۔
بھوربن کے بعد کافی نیچے اُس موڑ پر جہاں سے دریائے جہلم اور کوہالہ پُل نظر آتا ہے، وہاں ایک ریسٹورینٹ کی اوپن ایر کرسی میز پر بیٹھ کر ہم نے ڈیزل والے پراٹھے اور انڈے کھائے۔ ڈیزل والے پراٹھے کیسے ہوتے ہیں؟ ہوا کچھ یوں کہ "دی ٹریکرز" کے ایک اہم ممبر عبداللہ حسیب نے فیس بُک پر ایک تصویر لگائی جس میں ایک ملائشیئن ٹیم جی-ٹی روڈ کے کسی ڈرائیور ہوٹل کی منجیوں پر بیٹھ کر سیاہ ہو چکے پراٹھے کھا رہی تھی۔ حسیب بھائی نے تصویر کے ہمراہ لکھا "ڈیزل کے پراٹھے انجوائے کرتے ہوئے۔"
یوں 3.5 گھنٹے بعد ہم اسلام آباد سے تقریباً 119 کلومیٹر دور کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد پہنچ گئے جو دریائے جہلم، دریائے نیلم اور دریائے کنہار کے سنگھم پر واقع ہے۔ ہم لوگ تو یہاں اسلام آباد سے وہاں کشمیر جاتے ہیں مگر کشمیری لوگ وہاں سے یہاں "پاکستان" آتے ہیں۔ یعنی واپسی کا راستہ ذرا بین الاقوامی سا ہوتا ہے۔
نیلم بائی پاس روڈ کے اختتام پر عبید بھائی کھڑے تیز دھوپ سینک رہے تھے۔ بطوطا پگھل رہا تھا، بس جی کیا بطاؤں۔ مُصقراحٹوں اور باطوں کے طبادلے کے بعد اُن کا بہت بڑا بیگ کسی طرح جیپ میں فٹ کیا گیا۔
کیل میں ہم نے جو گیسٹ ہاؤس بک کیا ہوا تھا اس کے مالک کاشف صاحب کا فون آیا کہ مَیں مظفرآباد میں ہوں۔ پہلے مل کر پلان ڈسکس کرتے ہیں، پھر نیلم میں داخل ہو جاویں گے۔
بہرحال... نیلم روڈ پر آگے آگے ہماری نیلگوں جیپ غزالِ شَب جا رہی تھی۔ کافی پیچھے کاشف صاحب اپنی سفید رنگ سوزوکی پوٹھوہار میں آ رہے تھے جس پر ایک مطمئن قسم کا گینڈا بنا ہوتا ہے۔
ہماری منزل فی الحال کیل نہیں تھی بلکہ دھنی آبشار تھی جو مظفرآباد سے 30 کلومیٹر نیلم روڈ پر ہی موجود ہے.. اس آبشار کے متعلق اپنی بہت سی تحریروں میں بہت کچھ بیان کر چکا ہوں.. کہ کبھی اِک دریا کی صورت آسمان سے نازل ہوتی ہے.. کبھی چِٹی دُدھ خشک ہوتی ہے.. اور کبھی جیسے ہی اس خشک ہو چکی آبشار کے قریب جاؤ، وہ جوش میں آ کر پھوار جاری کر دیتی ہے۔
اِس بار شدید بیڑا غرق ہو گیا۔ جب ہم جیپ سے اتر کر آبشار کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ تالاب میں پانی کی جگہ گدھے ہی گدھے کھڑے تھے۔ اتنے گدھے ایک ساتھ دیکھ کر کافی خوشی بھی ہوئی کہ چلو شکر ہے، اِن کی سامنے موجودگی اِس امر کی گواہ ہے کہ کہیں اور موجود نہیں، مثلاً شکم وغیرہ میں۔
ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ کھوتا پڑھ لکھ جائے تو وہ گدھا بن جاتا ہے۔ اگر فیشن پرست ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ زیبرا بن سکتا ہے۔ دنیا میں کئی چڑیاگھر ایسے ہیں جہاں گدھوں کو رنگ روغن کر کے بطور زیبرا پیش کیا گیا ہے۔
کسی نے احتیاطاً ایک باذوق عالمِ دین سے مناسب سوال پوچھا "کیا گدھا کھانا جائز ہے؟" عالم نے جواب دیا "ویسے تو گدھے کے گوشت کی ممانعت ثابت نہیں لیکن گدھا اُس وقت حرام ہو جاتا ہے جب گدھا ہی گدھے کو کھانے کی کوشش کرے۔ احتیاطاً سمجھ لیں کہ گدھا حرام ہے۔"
غالباً بکروالوں کی مانند اب "گدھروال" بھی نیلم روڈ پر گدھا سٹاک کو سڑکوں پر سفر کرا کے "شہروں" میں پہنچا رہے ہیں۔ ٹیم میں جو لہوری احباب تھے وہ فوراً گدھوں کی جانب لپکے، خوشبو کے جھونکے ہی ایسے تھے، واہ۔ گدھوں کے اندر ایک گدھروال یوں چُھپا بیٹھا تھا جیسے اُن کے حلقے کا نمائندہ ہو.. فوراً بولا کہ یہاں کُتے بھی ہیں، قریب مت آنا ورنہ کاٹ لیں گے۔ مَیں نے کہا "ہم بھی کاٹیں گے۔" کتوں کے متعلق مَیں نے سوچا کہ یقیناً جہاں گدھے ہوں، وہاں کُتے تو ہوتے ہی ہیں۔
گدھوں سے بمشکل منہ موڑ کر ہم آگے بڑھ گئے۔ اگلی منزل کنڈل شاہی کے قریب کٹن آبشار تھی۔ یہ سارا علاقہ عبید کے اہلِ خاندان کا ہے اس لیے ہر کوئی اُسے جانتا تھا۔ بازار سے ایک دو کلومیٹر ذرا بلندی پر جاگراں ریزرٹ والی سڑک کے کنارے ہائیڈرل پروجیکٹ کے سلسلے میں بنائی گئی آبشار موجود ہے جس کی اونچائی تو دس بارہ فٹ ہو گی مگر اُس کی چوڑائی بہت شدید ہے.. پانی اتنی خوبصورتی سے بل کھا کر نیچے آتے ہیں کہ بس جی پانی بل کھا کر نیچے کو آ جاتے ہیں۔ اِس آبشار کے قریب بیٹھ کر پھوار وصول کرتے ہوئے اُسے دیکھتے رہنا بھی ایک الگ تجربہ ہے۔
جیسے ہی آبشار پر نظر پڑی، مجھے گزشتہ ٹرپ یاد آ گیا۔ ابھی پچھلے مہینے کی بات ہے کہ مَیں باجی جگنی کے ہمراہ ایک چاندنی شَب میں کنڈل شاہی پہنچا اور کھانا کھانے کے لیے کٹن میں موجود عبیدالرحمان فیملی کے ذاتی نیلم مُون گیسٹ ہاؤس کی جانب رخ کر لیا۔ وہ پورے چاند کی رات تھی اور پورے علاقے میں بتی گئی ہوئی تھی۔ جب مَیں آبشار کے قریب پہنچا تو دہشت اور خوبصورتی کی ایک ملی جلی کیفیت نازل ہو گئی۔ آبشار کے قریب سڑک پر جیپ پارک کر کے مَیں باہر نکلا اور آبشار کی جانب آ گیا۔ آسمان پر چاند شدید روشن تھا۔ پورے جنگل کے بالائی حصے نظر آ رہے تھے۔ پہاڑوں کی چوٹیاں شائبوں کی صورت تھیں۔ کٹن نالہ آبشار کی صورت شوریدہ تھا.. بلکہ عالمِ دہر کی خاموشی میں آبشار کا شفاف شور اعصاب پر طاری ہو رہا تھا اور ایسے میں وہ آبشار اتنی روشن تھی جیسے پگھل کر چمکتی چاندی کا دریا ہو۔ چاندی اور چاندنی.. واہ۔ واقعی خوبصورتی میں جب دہشت کا عنصر غالب آتا ہے تو وہ سہ چند ہو جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہو کہ خدا سے بیک وقت خوف اور محبت ضروری ہیں۔
مگر اِس وقت تو دن دیہاڑا تھا اور کافی چہل پہل تھی... مگر مَیں نے پہل ہرگز نہیں کی تھی.. اُس جانب سے ہوئی تھی۔
عبید کے ایک انکل شیخ ارشاد صاحب نے ہمیں چائے پلائی۔ وہ نیلم پریس کلب کے سابق صدر اب کشمیر پریس کلب ایسوسیشن کے نائب صدر ہیں۔ یعنی کشمیر کے اخبارات میں عاقب بھائی کی تحریریں اسی لیے انھے وا شائع ہو جاتی ہیں.. اگرچہ وہ تحریریں واقعی قابلِ اشاعت ہوتی ہیں۔ ناقابلِ اشاعت تحریروں کے لیے وہ الگ سے کتاب لکھ رہے ہیں جس کی کامیابی کی ضمانت مَیں ابھی دیتا ہوں۔
شام ہو رہی تھی۔ ہم کنڈل شاہی بازار میں واپس پہنچے۔ کاشف صاحب کا فون آیا کہ مَیں آپ سے آگے نکل چکا ہوں.. آپ دواریاں پہنچیے، آئیے رتی گلی چلتے ہیں، اس کے بعد راتوں رات کیل پہنچ جائیں گے۔
رتی گلی جھیل کے لیے کم از کم 7 گھنٹے ہونے چاہئیں۔ شام کے قریب قریب رتی گلی کی جانب صرف پاگل لوگ جاتے ہیں، مثلاً وہ جنہوں نے رتی گلی میں چاند اترتے دیکھنا ہو یا آکاش گنگا کو پانیوں میں بصورت محبوب کی ابرق سے لبریز سیاہ چادر دیکھنی ہو۔ اسی لیے مَیں نے ٹیم کے ساتھ مشورہ کر کے رتی گلی کے لیے ہامی بھر لی۔
مگر دواریاں پہنچ کر مقامی باشندوں نے کاشف صاحب کو ایسے پنگے لینے سے باز کرا دیا.. نتیجتاً ہمیں بھی باز آنا پڑا۔
وہ مہ وِش وہ ماہ رُو
وہ ماہِ کامل ہوبہو
تھیں جس کی باتیں کو بہ کو
اس سے عجب تھی گفتگو
پھر یوں ہوا وہ کھو گئی
تو مجھ کو ضِد سی ہو گئی
لائیں گے اس کو ڈُھونڈ کر
مَیں اور میری آوارگی
انشاءاللہ العزیز
شاردہ پہنچتے پہنچتے رات ہو چکی تھی اور کیل صرف ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ انجن میں کچرا آ رہا تھا اس لیے وہ مِسنگ کر رہی تھی اور رفتار ہلکی ہو رہی تھی۔ مگر کچھ دیر بعد آپئی ٹھیک ہو گئی۔
چناچہ اگر کوئی آپ سے کہے کہ "آئی ایم مِسنگ یُو".. تو سمجھ جائیں کہ اُسے کچرا آ رہا ہے اور کچھ دیر بعد ٹھیک ہو جائے گا۔
شاردہ سے کیل کے درمیان سڑک کی حالت تقریباً ویسی ہے جیسی بحرین سے کالام تک ہے، یا لاہور کی ملتان روڈ سمجھ لیں جہاں اورینج ٹرین کے لیے کام وام ہو رہا ہے۔ اُس شَب مسافرتِ شَب™ عروج پر تھی۔ گھنے سیاہ سرد مشکبار جنگل میں جیپ ٹریک نما راستہ اور "مِس یُو" کرتی غزالِ شَب.. واہ۔
بالاخر ہم کیل سے آدھا کلومیٹر قبل "کیل کناری" پہنچ گئے جہاں کاشف صاحب کا روئل فیملی گیسٹ ہاؤس موجود تھا۔ روایتی انداز میں پورا ہوٹل سدابہار دیودار کی خوشبودار لکڑی سے بنا ہوا تھا۔ کیا آپ کبھی چیڑ یا سدابہار دیودار کی لکڑی سے بنے کمرے میں رہے ہیں؟
کاشف صاحب نے ہمیں تین کمرے دے دیے۔ مَیں نے کہا کہ سر، ایک کمرہ بہت ہے۔ ہم جہاں گرد لوگ ہیں۔ ایک ہی بیڈ کے اوپر نیچے بھی پورے آ جاویں گے۔ انہوں نے کہا کہ آپ تینوں استعمال کیجیے مَیں ایک ہی لکھوں گا۔۔ جیسے کہتے ہیں کہ لگانا دس گننا ایک۔
معلوم پڑا کہ مشہور کمپنی ڈسکور پاکستان کی ٹیم بھی کیل میں کہیں موجود تھی.. شاید آزاد کشمیر ٹوؤرزم لاجز میں۔ انہوں نے بھی اگلی صبح چٹا کٹھا جانا تھا۔ دل بہت خوش ہوا کہ چلو ایک تو ٹریک پر ہم اکیلے نہیں ہوں گے، دوسرا یہ کہ شاید چٹا کٹھا ٹریک ذوق کی ہر حد تک بارونق ہو جائے۔
آخری رسومات کے طور پر ہم نے کیل بازار کے "لاہوری ہوٹل" سے "چکن کڑاہی" کھائی۔ حیرت انگیز طور پر وہاں وائی فائی کی سہولت موجود تھی۔ مَیں نے واٹس اَیپ کے ذریعے چند ضروری اور چند غیر ضروری کالز کیں اور پھر کچھ دیر فیس بک دیکھتا رہا تاکہ معلوم پڑے کہ فیس بک کے مشہور حکم "واٹس اون یور مائنڈ" پر کس کس نے عمل کیا ہے۔
واپس ہوٹل پہنچ کر اگلا پلان ڈسکس ہوا۔ جانے کس نے کیا کہا.. مگر اُس دوران ہمارا اچھا خاصا دو دن کا پلان یک روزہ ہو گیا۔ ہم نے چٹا کٹھا کو بطور چیلنج ایک دن میں سرانجام دینے کا تاریخی فیصلہ کیا۔ یہ ممکن شاید اس لیے لگ رہا تھا کہ ہم میں موجود تھے دو کنکورڈیئنز، ایک میرانجانیئن و مکڑن اور ایک بطوطا جسے بلیو وہیل کی ہر بات ماننے کی عادت ہے۔
ٹریک کے دوران اور بعد میں رلی ملی کیفیات ہی رہیں کہ جانے اس مہم کو ہم بے وقوفی کہیں یا کامیابی.. یقین کیجیے ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی۔ مگر ایک بات طے شدہ ہے کہ جو کچھ ہم نے کیا، چٹا کٹھا کی تاریخ میں بہت ہی کم لوگوں نے کیا ہو گا۔ اسی لیے مَیں یہ رایٹ اَپ لکھ رہا ہوں تاکہ قلم کے ذریعے مجھ پر انکشاف ہو کہ آخر ہویا کیا تھا۔
وہ پہلی شَب.. کیل کناری کے ایک لکڑ گیسٹ ہاؤس میں.. سدابہار دیودار کی لکڑی سے بنے مہک آور آرام دہ کمرے میں.. مَیں اور میری آوارگی، جامنی سلیپنگ بیگ کے اندر لیٹے ہوئے.. قریب ہر ممکن وقت گزاری کا سامان رکھے ہوئے، مثلاً کتابیں اور ہیڈفونز وغیرہ.. ایک پرتشویش رات تھی۔ صبح چھ بجے ایک ایسے ٹریک پر نکلنا تھا جہاں مَیں پہلے کبھی نہ گیا تھا.. ایک ایسے محبوب کی جانب سفر تھا جس کی شوخیاں، خطرناکیاں اور گستاخیاں بہت مشہور تھیں۔ اوپر سے ہم ایک دن میں کرنے کا پنگا لے بیٹھے۔ خوف یا ذوق، دونوں صورتوں میں نیند اُڑ جانا ضروری تھا.. تیری آنکھوں سے دریا کا اترنا بھی ضروری تھا۔
کچھ مزید خیالات بھی آئے۔ آجکل مجھ سے ہر اہم محفل چھوٹ رہی ہے:-
~ اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چُھوٹیں محفلیں
~ ہر شخص تیرا نام لے ہر شخص دیوانا ترا
ملتے ہیں صبح، اگلی تحریر میں۔ مَیں ذرا کچھ خواب دیکھ لوں.. اور یقیناً خواب میں بھی انسان جاگ رہا ہوتا ہے… بلکہ بعض اوقات ضرورت سے زیادہ جاگ رہا ہوتا ہے الحمدللہ۔
جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تُم ہو
اے جانِ جہاں یہ کوئی تُم سا ہے کہ تُم ہو
اِس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں
مَیں ہوں کہ کوئی اور ہے دُنیا ہَے کہ تُم ہو
دیکھو یہ کِسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری
دیکُھوں یہ کسی اور کا چہرا ہے کہ تُم ہو
اِک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ مَیں ہوں
اِک مَوج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تُم ہو
مجھے معلوم نہیں تھا کہ تُم بھی وہی ہو۔ مَیں یہ سوچے بنا تیرے پیار میں اُس وقت مبتلا ہوا جب میرا قدیم محبوب نظر کے سامنے نہیں تھا.. کہیں اور تھا۔ مجھے شرمندگی تھی.. مَیں بے وفا نہ تھا مگر تیرے حُسن نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا تھا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اے جانِ جہاں تُم میرے قدیم محبوب کا ہی ایک رُخ ہو.. میری بے وفائی اچانک وفا میں بدل گئی۔ کون ہو تُم؟
•••
صبح تقریباً 5 بجے آنکھ کھلی اور مَیں نے محسوس کیا کہ مَیں گھر پر ہی ہوں۔ وہی سفید سفید چھت، نرم و ملائم سی.. وہی گھر کی خاص فطرتی خوشبُو.. وہی مناسب درجہء حرارت.. وہی خاموشی.. وہی تنہائی، مِیلوں پر پھیلی ہوئی تنہائی.. واہ۔
جب وقت کی یہ لہر گزر گئی جس میں ہوم سِکنیس کی فیلنگ آ سکتی ہے، تب رفتہ رفتہ یاد آنا شروع ہوا کہ مَیں کہاں ہوں۔ مَیں اسلام آباد سے 274 کلومیٹر دُور کشمیر کی وادئ نیلم کے تقریباً آخری کونوں میں موجود کیل کے قصبہ میں ہوں جو دریائے نیلم سے قدرے بلند پہاڑی چوٹی پر واقع ہے۔ یہ دیودار کی خوشبودار لکڑی سے بنا ایک گیسٹ ہاؤس ہے اور وہ خوشبو کمرے میں پھیلی ہوئی ہے۔ اور اِس وقت مَیں سطح سمندر سے 6،879 فُٹ بلند ہوں۔ کِس سمندر سے؟ تُو نِیل سمندر ہے، مَیں ریت کا ساحل ہُوں۔
اصل میں میرا جامنی سلیپنگ بیگ ہر جگہ استعمال ہوتا ہے.. اکثر اوقات گھر میں بھی۔ یوں ارضِ وطن میں جہاں بھی آنکھ کھلے، اِسی بیرونی طور پر جامنی مگر اندرونی طور پر سفید بیگ کے اندر آنکھ کھلتی ہے، گویا گھر میں ہی آنکھ کھلتی ہے اور سومن حالت میں ہوم سِکنیس نہیں ہوتی۔ آپ بھی یہی کیا کیجیے۔ طرح طرح کے جراثیم سے بھی محفوظ رہیں گے۔
•••
سلیپنگ بیگ میں لیٹے لیٹے مَیں نے سبق دہرایا کہ آج کیا کرنا ہے تاکہ اُسی کے مطابق چھال مار کر اٹھ بیٹھوں یا مزید پڑا رہوں جب تک کہ کوئی دوسرا آ کر نہ اٹھا دے کہ قُم باِذن اللہ..
ہم نے ہر صورت 6 بجے نکل جانا ہے اور ناشتا کیل کے بازار میں کر کے 9000 فٹ بلند وادی میں واقع اپر دومیل کے لیے نکلنا ہے جو 20 کلومیٹر دُور اور دو گھنٹے جیپ ڈرائیو پر ہے۔ آگے 16,500 فٹ بلند ہری پربت کے ایک پہلو میں 13،500 فٹ بلند چٹا کٹھا جھیل تک 8 کلومیٹر ٹریکنگ ہے جسے انٹرنیٹ پر 5 کلومیٹر کی مشکل ٹریکنگ لکھا ہے۔ یعنی ایک ہی دن میں ڈیڑھ کلومیٹر بلند ہو جانا ہے۔ پھر اسی شب واپس کیل بھی پہنچنا ہے۔ ہم پروفیشنل ٹریکرز ہیں، کر ہی لیں گے، حالانکہ ہم سے بڑے ٹریکرز نے منع کیا ہے۔ یعنی چھال مار کر اٹھنا پڑے گا۔
•••
مَیں اٹھا اور صرف آنکھوں کی حد تک ٹھنڈے پانی سے غسل در غسل کیا.. اس سے زیادہ مجھ سے نہیں ہوتا۔ اس کے بعد گیسٹ ہاؤس سے باہر آیا اور پت جھڑ میں ارنگ کیل کے پہاڑ کی جانب نظریں مرکوز کر کے پائن سلم سلگا لیا.. خزاں اس علاقہ کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ ابھی شَب کی سردی قائم تھی اور اندھیرے کے جزیرے موجود تھے۔ دھواں دھواں ہو کر دماغ کو فور وہیل میں ڈالا اور واپس اندر آ کر ہلکا سا شور مچایا کہ روزے دارو! اٹھ جاؤ۔ تجربہ کار روزے دار پہلے ہی جاگ رہے تھے اور سامان پیک کر رہے تھے۔ چونکہ گزشتہ شب ہی فیصلہ ہو گیا تھا کہ ہم نے کیمپنگ نہیں کرنی اس لیے سلیپنگ بیگ اور شب بسری کے دوسرے اوزار ہم نے یہیں چھوڑ دینے تھے۔
میاں یاسین جس کمرے میں سوئے تھے، اُس کی کھڑکیاں مشرقی جانب ہی تھیں۔ اُن کھڑکیوں سے نیم روشنی اندر داخل ہو کر دیودار سے بنے کمرے کو شدید رومانٹِک بنا رہی تھیں۔ میرا دل چاہا کہ میاں جی سے کہوں، سر تسی تیار ہو کر باہر بیٹھو، مَیں یہاں ذرا ضروری کام سے گھنٹہ بھر سو کر آتا ہوں۔
میاں یاسین کا رکھ رکھاؤ، دھیمی پراثر شخصیت اور اِن کے اعلیٰ میعار کا سامان دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ میاں جی جہاں گردی کے معاملے میں نہ صرف سنجیدہ ہیں بلکہ جہاں گردی بھی اِن کے معاملے میں کافی سنجیدہ ہے اور اِن کی تربیت فرما رہی ہے۔ دو برس قبل مَیں "دی ٹریکرز" مہم کے ہمراہ میرانجانی جا رہا تھا۔ ٹیم لیڈر میاں یاسین تھے۔ اُس ٹرپ میں مس فریال اور سیدہ بخاری بھی تھیں۔ چونکہ اُن دنوں ٹریک پر برف تھی اس لیے ہمیں قدرے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے صحیح طرح یاد نہیں کہ ہوا کیا تھا بس اتنا یاد رہ گیا ہے کہ میاں یاسین بقیہ ٹیم کو فلائنگ کوچ کی جانب بھیج کر آدھے راستے میں موجود ایک جھیل کے کنارے بیٹھ کر ہمارا انتظار کر رہے تھے تاکہ واپسی پر ہمیں مکمل اندھیرے میں اکیلے نہ چلنا پڑے۔ اُس شَب مَیں بہت دیر تک سوچتا رہا کہ اندھیر جنگل میں ایک سیاہ جھیل کے کنارے بیٹھے ہوئے ایک تنہا شخص پر کیا کیا خیالات و کیفیات گزری ہوں گی... یہی وہ تربیت ہے جو فطرت اپنے خاص الخاص عاشقین کی کرتی ہے۔
•••
اتنی دیر میں کاشف صاحب آ گئے کہ فوراً نکل لیں، دیر نہ ہو جائے۔ کاشف صاحب نے ہی ہمیں اپر دومیل لے کر جانا تھا کیونکہ ان کی پوٹھوہار جیپ بھی فور وہیل ڈرائیو تھی۔ یعنی ہم نے کھانا، رہائش اور ٹرانسپورٹ وغیرہ سب کچھ کاشف صاحب کے ذمے لگایا تھا۔ بلکہ کاشف صاحب کہنے لگے کہ مَیں نے بھی آپ کے ساتھ چٹا کٹھا جانا ہے.. 3 گھنٹے کی واک ہی تو ہے۔
•••
پورے 6.10 بجے صبح ہم کیل بازار کے لاہوری ریسٹورینٹ میں تھے اور احتیاطاً انڈے پراٹھے کھا رہے تھے۔ کچھ اضافی پراٹھے ہم نے انہی سے بنوا لیے۔ گزشتہ شَب کا بچا ہوا چکن سالن بھی ہم نے ہمراہ رکھ لیا تھا۔ کچھ فوڈ ٹِنز بھی بیگز میں تھے۔
مَیں نے واٹس اَیپ کے ذریعے گھر میسج کر دیا کہ 'ہم ذرا یہ سامنے چٹا کٹھا تک جا رہے ہیں، شام یا رات تک واپس کیل پہنچ کر رابطہ کروں گا۔' ناردن ایریاز، خصوصاً کشمیر میں عمومی نیٹ ورکس موجود نہیں، صرف ایس-کام چلتا ہے جو آرمی کا موبائل اینڈ لینڈلائن نیٹ ورک ہے۔ اسی نیٹ ورک پر انٹرنیٹ کی سروس بھی موجود ہے جس کے ذریعے بعض ہوٹلز میں وائی-فائی سروس چلتی ہے۔
•••
دن نکل چکا تھا اور ہم سب پوٹھوہار جیپ میں لڑھکتے کودتے اپر دومیل کی جانب گامزن تھے۔ راستے میں ایک تیز رفتار چشمہ پر ایک لکڑ پُل آیا مگر کاشف صاحب نے جیپ کو پُل سے گزارنے کی بجائے چشمے کے تیز رفتار پانیوں میں ڈال دیا۔ مَیں نے پوچھا "سر، پُل کو چھوڑ کر خوامخواہ پھدکتے پانیوں میں جیپ ڈالنے کی وجوہات تحریر کریں۔" انہوں نے فرمایا "ذرا ایڈوینچر کے طور پر۔" مَیں نے کہا "سر، ہم تجربہ کار ایڈوینچررز ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ جب تک ایڈوینچر خود سر پر نہ پڑ جائے، اُس سے جان بوجھ کر پنگے نہیں لیتے۔" خیر، کاشف صاحب پوٹھوہار کو پھدکاتے رہے۔ مجھے شک پڑا کہ وہ بعض اوقات جان بوجھ کر ایسے پتھروں پر سے جیپ کو گزار رہے تھے جن سے بآسانی بچا جا سکتا تھا۔ مَیں چُپ ہی رہا کہ چلو خیر ہے، شاید وہ خود انجائے کرنا چاہ رہے ہیں۔
دائیں بائیں دیودار لکڑی سے بنے ہوئے کشمیر کے روایتی تین تین منزلہ گھر تھے جن کے اردگرد چھلی اور آلوؤں کے کھیت موجود تھے۔ اُن سے پرے قدرے سبز اور قدرے بھورے پہاڑ سربلند تھے جن کے نشیب میں مختلف ندی اور نالے رواں تھے۔ جیپ کی مصیبت یہی ہوتی ہے کہ ہر فطری آواز دب جاتی ہے.. مگر خوشبو سے فرار ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں کھڑکیاں کھول دینی چاہئیں۔
•••
ایک گاؤں کے آثار شروع ہوئے جس کا نام "لوئر دومیل" یا ترلی دومیل معلوم پڑا۔ گاؤں کے قریب ایک چٹان پر "پی-سی-او" لکھا ہوا تھا اور دو تین مقامی لوگ وہاں اوپن ایر بیٹھے فون پر بات کر رہے تھے۔ کاشف صاحب نے خود ہی فرما دیا کہ ایس-کوم کے سگنلز بس اس پوائنٹ تک آتے ہیں۔ اپنا فون یہاں لائیے اور دنیا سے رابطہ رکھیے۔ اس سے پرے کمیونیکیشن کے اعتبار سے اندھا کنواں ہے۔ مَیں نے کہا کہ اس سے آگے تھرایا سیٹلائٹ فون وغیرہ چلتے ہیں جو بڑی ٹوؤر کمپنیز کے پاس موجود ہوتے ہیں۔
یہی پوائنٹ جہاں تمام سگنلز بند ہو جاتے ہیں، ایک اور خاص سگنل شروع ہوتا ہے۔ عین سامنے "ہری پربت" کا نظارہ شروع ہو جاتا ہے۔ کیا خوبصورت پربت ہے۔ چٹا کٹھا جھیل حضرت حوا کی مانند اسی پربت کی بائیں پسلی میں موجود ہے۔
یہاں کچھ رومانٹِک جیوگرافی کی بات شیئر کرتا ہوں، ذرا توجہ فرمائیے گا۔ آزاد جموں و کشمیر کی سب سے بلند چوٹی کا نام "سروالی پِیک" ہے جسے ڈابر پِیک اور توشی-ری بھی کہتے ہیں۔ اُس کی بلندی 20،754 فٹ ہے۔ اسی سروالی پر میرے سرکل کے تین کوہ پیما کہیں غائب ہو گئے تھے۔ کہہ سکتے ہیں کہ جب تک وہ نہیں ملتے، سروالی ہی وہی ہیں۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر "ہری پربت" ہے جو 16،500 فٹ بلند ہے اور شدید ٹیکنیکل کلائمب ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ یہ دونوں خواتین آزاد کشمیر میں ہیں مگر ماؤنٹینز سائنس کے مطابق یہ دونوں خواتین "نانگاپربت" ہیں۔ جی ہاں، نانگاپربت میسف ایک وسیع سلسلہ ہے.. سروالی اور ہری پربت اسی نانگاپربتی سلسلے میں ہیں جو آزاد کشمیر میں داخل ہو جاتا ہے۔ چٹا کٹھا جھیل سے شروع ہو کر نانگاپربت کی چوٹی تک "اوپر اوپر سے" پہنچا جا سکتا ہے۔ اب نانگاپربت جن لوگوں کا محبوب ہے، یہ معلومات انہی کے لیے رومانوی ہوں گی۔
جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تُم ہو
اے جانِ جہاں یہ کوئی تُم سا ہے کہ تُم ہو
اِس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں
مَیں ہوں کہ کوئی اور ہے دُنیا ہَے کہ تُم ہو
دیکھو یہ کِسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری
دیکُھوں یہ کسی اور کا چہرا ہے کہ تُم ہو
اِک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ مَیں ہوں
اِک مَوج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تُم ہو
مجھے معلوم نہیں تھا کہ تُم بھی وہی ہو۔ مَیں یہ سوچے بنا تیرے پیار میں اُس وقت مبتلا ہوا جب میرا قدیم محبوب نظر کے سامنے نہیں تھا.. کہیں اور تھا۔ مجھے شرمندگی تھی.. مَیں بے وفا نہ تھا مگر تیرے حُسن نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا تھا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اے جانِ جہاں تُم میرے قدیم محبوب کا ہی ایک رُخ ہو.. میری بے وفائی اچانک وفا میں بدل گئی۔ کون ہو تُم؟ ہاں، یہ تُم ہو... ہری پربت۔
•••
اس کے بعد ہری پربت بار بار نظر کے سامنے آتا رہا.. ایک بلند ناقابلِ عبور دیوار۔
ایک اور موڑ پر عبیدالرحمان بطوطا کی آواز آئی "ننگی". اس سے پہلے کہ مَیں باذوق ہو کر استغفراللہ پڑھتا، وہ مزید بولا "وہ سامنے ننگی ماہلی پہاڑ ہے۔ اس میں سے آجکل رُوبیاں نکل رہی ہیں۔ روبی یا سرخ یاقوت ایک قیمتی پتھر ہوتا ہے۔" اُس خوبصورت مگر بے آب و گیاہ اور بے درخت پہاڑ کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ کچھ الگ سا پہاڑ ہے۔ معلومات ملی کہ کچھ کمپنیوں نے اس پہاڑ میں کانیں کھود رکھی ہیں اور وہ دھڑا دھڑ روبی نکال رہے ہیں۔
کچھ دیر میں ہم اسی ننگی ماہلی پر بل کھا رہے تھے۔ ایک جگہ دُور اپر دومیل کا قصبہ نظر آ رہا تھا۔ اپر دومیل سے مزید آگے چلتے جائیں تو شونٹر جھیل (چمچا جھیل) سے بھی آگے بلندی پر "شونٹر پاس" آ جاتا ہے جس کے پار گلگت استور کی وادئ رٹو ہے۔ اپردومیل سے ایک ٹریک نکلتا ہے جو سروالی پِیک بیس کیمپ تک جاتا ہے۔ سروالی کی دوسری جانب نانگاپربت کا ایک گھٹنا "میزینو پاس" ہے۔
•••
ننگی ماہلی کے قدموں میں شونٹر نالہ سے اوپر ایک کیمپ سائیٹ تھی جسے "ظہیر کا کیمپ" کہتے ہیں۔ چونکہ ہم ننگی ماہلی کے قدموں میں تھے اس لیے مَیں نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا کہ اوپر کیا ہے۔ اوپر ننگی ماہلی کی... دلکش چوٹی تھی۔
ہم نے جیپ کیمپ پارکنگ میں پارک کر دی۔ جیپ سے باہر نکل کر پتا چلا کہ ایک ٹائر کی "پِیپنی" میں سے دھڑا دھڑ ہوا نکل رہی ہے۔ کاشف صاحب نے فوراً ٹائر اتار کر سٹپنی لگائی۔ سٹپنی میں بھی ہوا نہ تھی۔ فیصلہ ہوا کہ اب دیر ہو رہی ہے، واپس آ کر دیکھیں گے۔ سیلف کرئیٹِڈ ایڈوینچر نے اپنی فیس چارج کر لی تھی۔
چٹا کٹھا ٹریک کا آغاز اس کیمپ سائیٹ سے آگے ایک آدھ کلومیٹر سڑک پر چلنے کے بعد دائیں جانب نیچے نالہ کے ایک پُل سے شروع ہوتا ہے۔ وہاں ایک گاؤں ہے جس کا نام چٹا کٹھا ہے۔
ابھی ہم سامان اٹھا چلنے ہی والے تھے کہ ایک اور جیپ کے آثار شروع ہوئے۔ جیپ قریب آئی۔ ایک ٹریکر باہر نکلا.. یہ ڈسکور پاکستان کمپنی کے مالک "محمد عمر" صاحب تھے۔ یہ وہی کمپنی ہے جس میں ملک کے مایہ ناز کوہ پیما "آصف بھٹی" بھی شغل فرماتے ہیں۔ مَیں نے جیپ میں موجود بقیہ ٹیم کو سکین کیا۔ سبھی بندے ای بندے تھے۔ یعنی چٹا کٹھا ٹریک پر آج مَردوں کی حکمرانی تھی۔ صرف ایک خاتون تھیں جو ہمارے ساتھ تھیں اور وہ بھی اہلِ ذوق میں "پاین" مشہور ہیں۔
کیپٹن نادرہ نے ابھی حال ہی میں ڈسکور پاکستان کے ہمراہ کے-ٹو بیس کیمپ مہم سرانجام دی ہے۔ اُس مہم میں "دی ٹریکرز" کی ٹیم بھی ہمراہ تھی۔ یعنی ہم سب ایک دوسرے کو جانتے تھے، لہذا کافی سلام دعا ہوئی۔ محمد عمر بھائی حیران تھے کہ ہماری ٹیم آج کی تاریخ میں چٹا کٹھا تک کیسے پہنچ پائے گی۔ بے چارے درست ہی حیران تھے۔
بہرحال سلام دعا کے بعد ہم نکل گئے۔ ایک کلومیٹر سڑک پر چلنے کے بعد دائیں جانب نشیب میں پگڈنڈیاں اتر رہی تھیں جو شونٹر نالے تک جاتی ہیں۔ وہیں کہیں وہ پُل تھا جسے عبور کر کے ہم نے ٹریک پر آ جانا تھا۔ پگڈنڈیوں پر بل کھاتے ہوئے مَیں نے اُس وادی میں نظر دوڑائی جس میں ہم نے داخل ہونا تھا۔ دائیں جانب خزاں کے رنگوں سے مزین الپائن جنگل تھا اور بہت پیچھے کہر میں ہری پربت نظر آ رہا تھا اور ایک تیز رفتار دودھیا رنگ نالہ چنگھاڑتا ہوا اوپر سے آ رہا تھا۔ اسی نالے کو "چٹا کٹھا" کہتے ہیں کیونکہ مقامی زبان میں کٹھا کا مطلب نالہ ہے۔ چٹا کٹھا نالہ ہر جگہ سفید رنگ نظر آتا ہے۔
•••
بظاہر ٹریک بہت لمبا محسوس نہیں ہو رہا تھا مگر اس وادی کے خدوخال بتا رہے تھے کہ ٹریک فوراً بلندی اختیار کرے گا اور یقیناً ساہ بھی نہیں لینے دے گا۔ ویسے عاشق یہی چاہتا ہے۔
پُل کو عبور کیا تو ریتلا ٹریک شروع ہو گیا جو وادی کی بائیں جانب تھا اور بلندی اختیار کرتا شدید پھسلواں تھا۔ اوپر چٹا کٹھا گاؤں تھا جس کی خواتین آلو کے کھیتوں میں کام کر رہی تھیں۔ مرد کوئی نہیں تھا، شاید اندر کہیں بیٹھ کر رایٹ اَپس لکھ رہے ہوں۔ گاؤں کے بعد پہلے چند سو میٹر ایک فٹ چوڑی پگڈنڈی کافی مناسب رہی مگر پھر بلندی اختیار کرنا شروع ہوئی۔ میاں یاسین اور کاشف صاحب تو نارمل واک سمجھ کر کافی آگے نکل کر ڈِنکیوں میں بدل گئے۔ مَیں اور کیپٹن دھیرے دھیرے بڑھ رہے تھے۔ عبیدالرحمان ہمارے ہمراہ تھا.. حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ کیپٹن میرے بڑے بھائیوں جیسے ہیں۔
برچ کا جنگل شروع ہوا۔ یہ وہی برچ ہے جس کی سفید رنگ چھال بالکل کتاب کے صفحات جیسی پرت در پرت ہوتی ہے۔ اور ہر صفحہ پر تیرا نام لکھا ہے۔ فیئری میڈوز سے آگے بیال کیمپ کے اخیر میں بھی ایک برچ کا جنگل موجود ہے۔ برچ ہمیشہ بلندیوں پر پایا جاتا ہے۔
جنگل میں سے گزرنا ایک دلکش تجربہ تھا۔ تیز رفتار پانیوں کی آواز۔ پرندوں کی چہچہاہٹ اور خوشبُو۔ اور کچھ یادیں جو غیر متوقع طور پر عود آئیں۔ جل جل کے دھواں ہو رہے ہم، نس نس میں نشہ بھیگا ہے مَن، یہ دل کی آرزو ہے، مر جائیں تیری بانہوں میں ہَم۔
دس منٹ کے بعد جو جنگل ختم ہوا تو ہم نے اب تک کا حسین ترین منظر ملاحظہ کیا۔ تیز رفتار دودھیا نالہ بالکل قریب آ چکا تھا.. اتنا کہ دہشت طاری ہو رہی تھی۔ اور عین سامنے تنگ وادی کے پار ٹرانگو ٹاورز نما ایک پہاڑ نظر آ رہا تھا۔ وہ ہری پربت تو نہ تھا مگر سُر اُسی تان کے تھے۔
ذرا سا مزید بلند ہوئے تو ٹریک نالہ کے عین کناروں پر آ گیا۔ اب ہم گیلے پتھروں پر ٹاپ ٹاپ کے آگے بڑھ رہے تھے۔ یقیناً نالے میں ذرا سے بھی زیادہ پانی آ جاتے تو راستہ ختم ہو جاتا۔ بائیں جانب عین عمودی دیوار تھی۔ اس علاقہ میں طرح طرح کی جڑی بوٹیاں تھیں جن کی خوشبوئیں مست کر رہی تھیں۔ ایک خوشبو ایسی آئی کہ میری آنکھیں نم ہو گئیں.. اُس خوشبو کو مَیں اتنا پہچانتا ہوں کہ اُس وقت مَیں اپنے آپ کو بھی فراموش کر دیتا ہوں۔ ہماری سانسوں میں آج تک حنا کی خوشبو مہک رہی ہے۔
سُنا ہے کہ چٹا کٹھا گاؤں سے ایک اور راستہ بھی نکلتا ہے جو دائیں جانب والے پہاڑوں سے ہوتا ہوا اوپر سے اوپر جاتا ہے۔ تب یہ نالہ بائیں جانب نشیب میں ہوتا ہے۔ وہ قدرے طویل مگر چوڑا راستہ ہے مگر وہاں ٹریکرز نہیں جاتے۔ شاید اُس وقت جاتے ہوں جب نالے میں پانی زیادہ ہو جاتے ہوں گے۔
کافی آگے پہنچ کر ٹریک ختم ہو گیا۔ سامنے ایک عمودی دیوار کھڑی تھی اور ایک جانب آبشار کی صورت نالہ چنگھاڑ رہا تھا۔ عبیدالرحمان نے کہا "اب ذرا سی کلائمب ہے"۔ کافی زیادہ کلائمب تھی۔ پیروں کے علاوہ ہاتھوں سے بھی چڑھنا پڑ رہا تھا۔ اسی جگہ کہیں "ننگی ماہلی" کا ایک خوبصورت منظر نظر آیا۔ خزاں رنگ درختوں کے پس منظر میں کہرآلود ننگی.. ماہلی..
یہ ٹریک کافی تھکا رہا تھا مگر بہرحال ہم کافی بلندی پر پہنچ گئے۔ اوپر پیالہ نما ایک سپاٹ سا میدان تھا اور ہری پربت ہر سو طاری تھا۔ بلکہ ہری کی دو چوٹیوں کے درمیان بلند وادی میں ایک گلیشیئر بھی نظر آ رہا تھا اور وہاں دھند چھا رہی تھی۔ اور بلندی کی دو چوٹیاں بہت ہوشربا ہوتی ہیں۔
اس میدان میں چرواہوں کے گھر تھے جنہیں "بہک" کہتے ہیں۔ ٹریکرز لوگ اس جگہ کو "ڈیک وَن" بولتے ہیں۔ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ بطخ والی "ڈَک" ہے یا بحری جہاز والی منزل "ڈَیک" ہے۔ بہرحال جو بھی ہے، ہم ڈیڑھ گھنٹے میں یہاں تک پہنچ چکے تھے۔
عبید نے کہا کہ ہم اچھی رفتار سے جا رہے ہیں۔ دوسرے ٹریکرز یہاں تک پہنچ کر ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور کیمپ لگا لیتے ہیں۔ چلیے آگے چلیے۔ وہ سامنے والے پہاڑ کے اوپر ڈَیک ٹُو ہے۔ اور وہاں سے ہمیں اپنی منزل دکھائی دے گی۔
اس خوبصورت میدان میں جامنی رنگ کے بے تہاشا پھول تھے۔ ہم ان پھولوں کے درمیان گزرنے کے بعد سامنے والے پہاڑ کے نیچے پہنچ گئے اور زگ زیگ کرتے ہوئے اوپر چڑھنے لگے۔ اس چڑھائی میں ہمارا پونا گھنٹہ لگا۔ ٹریک پر مختلف دوڑتے پھرتے کِرلے پیغام دے رہے تھے کہ تُسی کتھوں چڑھدے پئے او سوہنیو۔ یعنی یہ ایک شارٹ کٹ تھا۔ عبید گائیڈ ہو تو آپ سیدھے راستے کی توقع ہرگز نہ رکھیے.. البتہ خوبصورتی کی توقع ضرور رکھیے۔ اوپر دائیں جانب "ڈَیک ٹُو" کی بہکیں تھیں اور ہم اُن سے بلندی پر تھے۔
ڈَیک ٹُو تک میری اور کیپٹن نادرہ کی ہمت جواب دے چکی تھی مگر وہاں جو منظر تھا وہ ناقابلِ بیان حد تک خوبصورت تھا۔ ہر جانب بلندی سے آبشاریں گر رہی تھیں۔ ایک بڑی آبشار ہری پربت کے عین نیچے سے اُبل رہی تھی اور چٹانوں میں مزید شاخیں بنا رہی تھی۔ ہندوستان میں ایک ایسی ہی آبشار موجود ہے جسے "دُودھ ساگر" کہتے ہیں۔ چٹا کٹھا نالہ دائیں جانب کسی دیوار سے پھوٹ رہا تھا۔ اہلِ علاقہ کے مطابق چٹا کٹھا جھیل کے پانی اندر ہی اندر بہہ کر کافی نیچے پہنچتے ہیں اور آبشار کی صورت ابل پڑتے ہیں۔ جیسے جھیل سی آنکھیں تو اوپر ہوتی ہیں مگر زرخیز پانی نیچے سے ابلتے ہیں۔
اس کے بعد عبید نے کہا کہ بائیں جانب بلندی اختیار کرتے جائیں۔ اوپر پتھروں سے پار ہو کر اوپر ہی اوپر سے ہری پربت کے وسط تک جانا ہے.. یعنی آبشاروں سے بھی اوپر اوپر سے۔ مزید آگے وہ دائیں جانب جو کنارہ سا نظر آ رہا ہے اُس کے پار چٹا کٹھا جھیل ہے۔
یہ پیراگراف جو اتنی آسانی سے مَیں نے لکھ دیا ہے، اتنی آسانی ہمیں ہوئی نہیں۔ جیسے جیسے ہم مزید بلند ہو رہے تھے، گہرائی خطرناک حد تک گہری ہوتی چلی جا رہی تھی۔ ٹریک تو تھا ہی نہیں، بس ویسے ہی بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ پتھروں کے بعد تقریباً عمودی زاویہ بناتی ایک ایسی جگہ آئی جو غالباً ایک ہی پھسلن سے لبریز چٹان تھی۔ اُس پر پاؤں پھسلنے کا مطلب ہزاروں فٹ گہرائی میں بلا اشتعال گرنا تھا۔
ہم نے عبیدالرحمان کو گھوریاں ڈالنی شروع کر دیں کہ بھیا یقیناً یہ غلط راستہ ہے۔ چٹا کٹھا جھیل کی تصاویر میں تو ہم نے خواتین بھی دیکھی ہیں۔ وہ اس راستے سے نہیں آئی ہوں گی۔ عبید یعنی بطوطا نے ہامی بھر لی.. یعنی ہم لُٹے گئے۔ اب کیا ہو سکتا تھا، چلتے ہی رہے۔ ایک جگہ ہم اتنا بلند تھے کہ باقاعدہ درہ عبور کر کے پچھلی وادی میں داخل ہو سکتے تھے۔ انہی چٹانوں پر راستہ محض چند انچ چوڑا رہ گیا اور نیچے نہایت ہی میٹھی کھائی تھی۔ عبید نے کیپٹن اور مجھے نہایت مشکلات سے یہ حصہ عبور کرایا۔
دن ڈھلتا جا رہا تھا اور ہم ہری پربت کی گود میں سے گزر رہے تھے۔ بہت دور نیچے ڈَیک ٹُو کی بہکیں نظر آ رہی تھیں۔ میاں یاسین اور کاشف صاحب غائب ہو چکے تھے۔ بہت نشیب میں ہمیں دو سفید خیمے بھی نظر آئے۔ سامنے ہماری مطلوبہ بلندی کے پار کے-ٹُو نما وہ پربت نظر آ رہا تھا جو چٹا کٹھا جھیل کی ہر تصویر میں نظر آتا ہے.. اور یقیناً وہ ہری پربت نہیں ہے کیونکہ اس وقت ہری پربت تو ہم تھے۔
دیکھو یہ کِسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری
دیکُھوں یہ کسی اور کا چہرا ہے کہ تُم ہو
آخرکار ہم ہری پربت کے دوسرے حصے میں پہنچ گئے جس کے آگے ذرا سی بلندی کے پار جھیل تھی۔ مگر یہ بلندی کوئی ایسی واہیات بلندی تھی جو ختم ہونے میں نہ آ رہی تھی۔ دن ڈھلتا جا رہا تھا اور اندیشے بڑھ رہے تھے کہ کیا واپسی بھی ایسی ہی ہو گی اور کیا اندھیرے میں ہو گی!!..
•••
بہت دُور اوپر ہمیں دو شائبے نظر آئے جو اِدھر اُدھر چل پھر رہے تھے۔ یقیناً وہ میاں یاسین اور کاشف صاحب تھے۔ جب تک ہم اُن تک پہنچے، شام کے آثار شروع تھے۔
جتنا جلدی ممکن ہو سکا ہم فوراً جھیل تک پہنچے۔ شام ہو چکی تھی اور سردی بڑھ رہی تھی۔ اچانک جھیل کے پانی نظر آ گئے۔ ہم 2،800 میٹر سے شروع ہو کر ایک ہی دن میں 4،200 میٹر تک پہنچے تھے.. یعنی جھیل کی سطح سے بھی 100 میٹرز اوپر۔ یہ کافی زیادہ کلائمب تھی۔
یہ تو وہ مسکراتی جھیل نہ تھی جو ہم نے تصاویر میں دیکھی تھی۔ یہ تو سرمئی رنگ کی ایسی جھیل ہے جس کے پانی دہشت سے لبریز ہیں۔ پس منظر میں قطار در قطار برف پوش چوٹیاں صف باندھے کھڑی تھیں جیسے حملہ آور ہونے کو تیار ہوں۔ بالکل آرکٹِک ریجن کا ماحول تھا جہاں چھ مہینے رات ہوتی ہے۔
اچانک برف باری شروع ہو گئی اور ہماری مکمل ٹیم جھیل کا یہ دھشت ناک رُخ دیکھتے ہوئے بے حد حیرت زدہ تھی۔
ہاں..... دھشت اور خوف کے پار جو اَن ٹچڈ خوبصورتی ہوتی ہے وہ بے حد کائناتی ہوتی ہے.. جیسے موت کے پار جو اَن ٹچڈ منظر ہے وہ نظر آ جائے۔
سردی، برف باری اور نہایت تیزی سے طاری ہوتی رات نے ہمیں جھیل پر زیادہ دیر ٹھہرنے نہیں دیا.. ہم واپس مڑ گئے۔
ہم چند اُن ٹریکرز میں شامل ہو چکے ہیں جو ایک ہی دن میں کیل سے شروع ہو کر اِس بلند جھیل تک پہنچے.. مگر کیا قیمت ادا کر کے۔ آپ یہ سوال جہاں گردوں سے نہیں پوچھ سکتے جو تن من کی بازی لگا دینے والے ہوتے ہیں۔
•••
اب جھیل کے بعد ہمیں ایک سمندر کا سامنا تھا... تاریکی کے سمندر کا۔ اندھیرے میں راستے گُم ہو جایا کرتے ہیں۔ ہمارے پاس کھانے کا سامان تو کافی تھا مگر کیمپنگ کا سامان نہیں۔
آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا.. عبیدالرحمان راستہ بھول گیا.. ارض و افلاک مکمل طور پر اندھیرے میں ڈوب گئے.. اور ہم سَب حیرت زدہ اور دہشت زدہ کھڑے رہ گئے کہ اب کیا ہو گا۔
وہ وقت نہ آئے کہ دل زار بھی سوچے
اس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تُم ہو
ہاں مگر مَیں مُسافرِشَب™ ہُوں....... خوب جانتا ہوں کہ فطرت کی جانب سے دیے گئے اندھیرے بہت روشن ہوتے ہیں.. اُن سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ مَیں نے سب کو حوصلہ دیا کہ جو فطرت آپ کو پیدا کرتی ہے، اُس پر اعتبار رکھیے اور انتظار کیجیے۔
یہاں.. شاء کالی چٹا کٹھا جھیل کے قریب.. سیاہ ہو چکے ہری پربت کی آغوش میں جو نانگاپربت کا ہی ایک رُخ ہے.. ہم ایک کاجل کوٹھے پر تھے۔
جیسے کہتے ہیں کہ دوست دوست نہ رہا، پیار پیار نہ رہا، ایسے ہی چِٹا چِٹا نہ رہی اور ہری ہری نہ رہا.. سب کچھ پیا رنگ کالا ہو گیا.. اور ہم تاریکی کے بھید بھرے سمندر میں حیران و پریشان کھڑے تھے کہ جائیں تو جائیں کہاں، جو گھر رہیں کیا گھر رہیں، یار بن لگتا نہیں جی، کاش کہ ہم مر رہیں، کیا کریں، جاویں کہاں، گھر میں رہیں باہر رہیں۔
ناصر کاظمی کہتے ہیں کہ اِس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تُو کہاں، آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں۔ تو ہم اُسی گھر میں تھے جہاں شبِ فراق آ کر سما چکی تھی۔
~ عشق میں کچھ نظر نہیں آیا
~ جس طرف دیکھیے اندھیرا ہے
کہ گہرے بادلوں کی وجہ سے اوپر بھی نیچے ہی جیسا تھا.. اگر کائنات نظر آ جاتی تو پہاڑوں کے سیاہ شائبوں سے سمت کا اندازہ ہو جاتا۔
•••
دنیا میں ترقی کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ سمندروں جیسے اندھیروں میں برقی قمقموں اور ٹھمٹُھموں کے چھید ڈال کر روشن جزیرے بنا دیے جائیں اور پورے کے پورے ملک روشن کر دیے جائیں۔ لاشعوری طور پر انسان اندھیروں سے بہت ڈرتا ہے۔ جب کبھی آپ گئی رات بین الاقوامی فلائیٹ میں سفر کر رہے ہوں تو نیچے سمندر جیسے اندھیروں میں جو شہر جتنا زیادہ روشن جزیرہ نظر آتا ہے، وہ اُتنا ہی ترقی یافتہ کہلاتا ہے۔ تو انسان اندھیروں سے ڈرتا کیوں ہے؟ حالانکہ جذب و مستی کی انتہا میں یہی انسان اندھیرے ڈھونڈنے لگ جاتا ہے:
~ شبِ وصال ہے گُل کر دو اِن چراغوں کو
~ خُوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا
اور اِن اندھیروں کی وسعت کیا ہے.. چٹا کٹھا کالا کوٹھا سے شروع ہو کر آدھی کرہء ارض تک چند ہزار کلومیٹر کے سیاہ اندھیرے.. اس سے آگے سفر کلومیٹروں میں نہیں، وقت کی ڈائی-مینشن میں ہوتا ہے اور ہر سُو ابدی رات ہے۔
کرہ ارض کے بعد بین السیاراتی سیاہ خلا ہے جس میں روشنی کئی کئی مہینے سفر کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتی ہے۔ مزید آگے بین الستاراتی سیاہ خلا ہے جس میں سفر نُوری سال میں ہوتا ہے۔ پھر کہکشانی سیاہ خلا ہے جہاں سینکڑوں ہزاروں برس تک روشنی سفر کرتی ہے پھر کہیں ایک ستارے کی روشنی دوسرے ستارے تک پہنچتی ہے۔ پھر بین الکہکشانی سیاہ خلا ہے جہاں روشنیاں لاکھوں کروڑوں سال سفر کرتی ہیں مگر خلا کا یہ حصہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ پھر کائناتی سیاہ خلا ہے جہاں بعض روشنیاں کائنات کے آغاز سے سفر شروع کر چکی ہیں اور ابھی تک زمین پر یا کسی اور تھاں نہیں پہنچیں۔ اور اُس کے بعد.. کسی کو کچھ معلوم نہیں..... کائنات کے بعد کیا ہے؟ مجھ سے پوچھیں گے تو یہی کہوں گا کہ کائنات کے بعد کچھ نہیں۔ اگر کچھ ہے تو وہ بھی کائنات ہے.. ابدی کائنات.. اِدھر بھی اور اُدھر بھی۔ انہی وجوہات کی بنا پر مجھے مُسافرِشَب™ کہتے ہیں.. یہ زمین کی شَب نہیں، کائنات کی ابدی شَب ہے اور ہم سب مسافر ہائے شَب ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ روح زبردست مسافرِشَب ہوتی ہے۔ آپ کے اردگرد شدید اندھیرا، محبوب کی نرم گرم ہیجان انگیز گود ہے۔
مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی
مری سرشت میں ہے پاکی و درخشانی
تُو اے مسافرِشَب™! خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغ جگر سے نورانی
•••
ابھی مَیں خوف و ہراس اور زبردست اندیشوں کے باوجود اپنے اندرونی سفروں میں محو تھا کہ ایک آواز آئی:
"ہائے وے بطُوطیا......"
کیپٹن نادرہ نے عبید الرحمان ابنِ بطُوطا کو اپنی کیفیات سے آگاہ کیا۔ یعنی اظہارِ جلال کے لیے محض بطُوطا کہنا ہی کافی تھا۔ اور بطُوطا اُس وقت اِدھر اُدھر دَوڑ پج کر راستہ تلاش کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہے تھے۔ اس سے پہلے بھائی ملائشیا، تھائی لینڈ اور سعودی عرب میں بھی دوڑتے پجتے رہے ہیں۔ بلکہ ایک بار اِنہوں نے سعودی عرب جانا تھا مگر عین فلائیٹ کے وقت جب آپ کو بورڈنگ پاس لے کر جہاز میں جا بیٹھنا چاہیے تھا، آپ مجھے اور علی کامی ایشوریا کو اپنے ہمراہ لے کر کوٹلی ستیاں کی اُف ٹاپ سر کرنے چل پڑے۔ مَیں نے پوچھا "سر آپ کی فلائیٹ!"۔ بھائی نے کہا "جلدی کاہے کی ہے، پکڑ لُوں گا۔" اس بات کو تقریباً دو برس بِیت چکے ہیں۔
•••
تو اِس وقت کاجل کوٹھا کے اندھیروں میں راستہ ڈھونڈنے کے لیے وہ جہاں بھی جاتے، ہم سب اُن کے پیچھے چل پڑتے۔ ٹارچوں اور ہیڈلائٹس کی روشنیوں میں کچھ دُور پہنچ کر آشکار ہوتا کہ آگے روشنیوں میں بھی زمین نطر نہیں آ رہی، مطلب یہ کہ ہم کھائی کے کنارے پہنچ جاتے۔ بالکل ایسا محسوس ہوتا جیسے آپ سطح سمندر سے 300 میٹر اندر مکمل اندھیروں میں ہوں اور تاریک سمندری ڈھلوانوں پر ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہوں۔
آخرکار کیپٹن نادرہ تھک ہار کر ایک چٹان پر بیٹھ گئیں اور کہا کہ مَیں کہیں نہیں جا رہی۔ اُس وقت کسی کی بھی جانب سے حوصلہ مندی کے الفاظ اُلٹا اثر کر رہے تھے۔ میاں یاسین اور کاشف صاحب نے حوصلہ نہیں ہارا، مجھے اس چیز نے کافی حوصلہ دیا۔ مَیں اور عبید مل جل کر پہاڑیاں ٹاپتے رہے کہ کہیں راستہ ملے مگر ہر جانب ایک ہی جانب لگتی تھی۔ کافی نازک صورتحال تھی۔
•••
انہی ٹامک ٹوئیوں کے درمیان اچانک میرے وجدان پر افتخار عارف کی ایک آزاد غزل وارد ہوئی اور مَیں نے زیرِ تخیل گنگنانا شروع کر دیا:
میری زندگی میں بس اک کتاب ہے..
اِک چراغ ہے، ایک خواب ہے، اور تم ہو..
یہ کتاب و خواب کے درمیان جو منزلیں ہیں،
مَیں چاہتا تھا تمھارے ساتھ بسر کروں..
یہی کل اثاثہ زندگی ہے، اسی کو زادِ سفر کروں..
کسی اور سمت نظر کروں تو میری دعا میں اثر نہ ہو..
میرے دل کے جادہء خوش خبر پہ
بجز تمھارے کبھی کسی کا گزر نہ ہو..
میری زندگی میں بس اک کتاب ہے..
اِک چراغ ہے..
ایک خواب ہے..
اور تم ہو۔
ابھی مَیں اس غزل پر سوچ ہی رہا تھا کہ مَیں اور بطُوطا ایک پہاڑی عبور کر کے دوسری جانب پہنچے جس کے پار بھی ویسا ہی اندھیرا تھا جو اِس پار تھا.. مگر ایک نئی معلومات کا اضافہ ہو چکا تھا........ اور اصل بات ساری کی ساری وہی تھی۔
سیاہ سمندر میں نیچے ہمیں ایک روشنی نظر آ گئی جیسے کائنات کا آغاز ہوا ہو۔ فوراً سے پہلے دماغ نے کمپاس درست کر لیا کہ یہ ڈَیک ٹُو کیمپ کی روشنی ہے جہاں ڈسکور پاکستان کی ٹیم ٹھہری ہو گی.. کوئی اور ٹیم بھی ہو سکتی ہے مگر ہے یہ ڈَیک ٹُو ہی۔ یعنی اب ہم درست وادی کی جانب رخ کیے ہوئے تھے اور پگڈنڈی بھی اِدھر ہی ہونی چاہیے۔ اچانک روشنی کی جانب سے معلومات جاری ہو گئی۔ روشنی میں ہی ایس-او-ایس سگنل جاری ہو گئے.. مخصوص انداز میں روشنی کا جلنا بھجنا۔ یعنی ڈَیک ٹُو کو اطلاع ہو چکی تھی کہ ایک بطُوطوی ٹیم بلندیوں پر بھٹک رہی ہے۔ ہم نے بھی ایس-او-ایس سگنل جاری کیا۔ یوں، ایس-کوم یا کسی بھی نیٹ ورک کے بغیر محض موبائل ٹارچوں سے اس کمیونیکیشن نے دل کو اتنا سکون پہنچایا کہ جتنا لیٹ نائیٹ عاشق و محبوب واٹس ایپ پر باتصویر کمیونیکیشن کرتے ہیں.. بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ۔
~ شہر کے اندھیرے کو اِک چراغ کافی ہے
~ سو چراغ جلتے ہیں اک چراغ جلنے سے
یقیناً اس بار بطُوطا کو وہ پگڈنڈی مل گئی جو دھیرے دھیرے نیچے کی جانب جا رہی تھی۔ اُس پگڈنڈی پر پڑے ہوئے چپس کے چند لفافے اور ببل گم کے ریپرز ہمیں اتنے پیارے لگے کہ ہم اُٹھا کر چُوم سکتے تھے۔ ایک ریپر تو مَیں بطور تبرک اپنے ہمراہ بھی لے آیا ہوں۔ خبردار کسی نے ان علاقوں میں صفائی مہم کی۔ شکریہ۔
اور ہاں، اُس سیاہ سمندر میں اُس راستے پر چلتے ہوئے محسوس ہوا کہ جیسے کسی فطرت کے موسیٰ نے اپنے عصا سے سیاہ سمندر میں راستہ بنا دیا ہے اور ہم بنی اسرائیل کی مانند اس پر چلتے جا رہے ہیں۔ تو کیا پار اُتر کر ہم گائے گدھے پُوجنا شروع کر دیں گے یا موسیٰ سے وفادار رہیں گے؟ کیا جہاں گرد اپنی فطرت سے باز آتے ہیں؟
•••
اب آگے جتنا بھی راستہ تھا.. پگڈنڈی موجود تھی اور ہم طے کرتے چلے جا رہے تھے۔ چونکہ مَیں اس پورشن کی تصاویر دیکھ چکا تھا اس لیے جانتا تھا کہ یہ پگڈنڈیاں بھی گہری کھائیوں پر معلق ہیں مگر کھائی نظر نہیں آ رہی تھی۔ ہم تو خود ہرسُو طاری ایک کائناتی کھائی میں چل رہے تھے جیسے بلیک ہول ہوتا ہے۔
ایک موڑ آیا اور پگڈنڈی نے نیچے جاتے ہوئے اُسی جانب رخ کر لیا جس جانب سے ہم آئے تھے۔ یہی نیچرل تھا، تبھی تو ہم زِگ زَیگ کرتے نیچے پہنچ پاتے۔ اس موڑ پر ہمیں ایک اور روشنی نظر آ گئی جو ڈَیک ٹُو کے مقابلے میں قریب تر تھی۔ غالباً یہ وہی دو سفید خیمے تھے جو ڈَیک ٹُو سے آگے وادی کے اختتام کے قریب تھے۔ وہاں سے بھی ایس-او-ایس سگنل جاری ہو گیا۔ پوری وادی کو ایک دوسرے کی خبر ہو چکی تھی۔ واہ، کیا کیفیات تھیں۔ جو سیاہ سمندر تھا، اتنا ہی کیفیات کا سمندر تھا۔
•••
چند ایک مزید خطرناک پھسلواں موڑ کاٹنے کے بعد ایک اور معلومات کا اضافہ ہوا.. جیسے قبر کے اندھیرے میں نئی سے نئی معلومات مل رہی ہوں.. اب کی بار معلومات کا تعلق روشنی سے نہ تھا، آواز سے تھا۔ آبشار کی آواز آنے لگی جو رفتہ رفتہ تیز تر ہوتی چلی جا رہی تھی کیونکہ ہم اُسی جانب جا رہے تھے۔ آبشار کی آواز سے پردہء ذہن پر محبوب کے خدوخال بنتے چلے جا رہے تھے۔ کیا دلفریب آواز تھی.. اور وہ آواز باقاعدہ راستہ دکھا رہی تھی.. ہمیں بتا رہی تھی کہ ہم اس وقت کہاں ہیں۔ جب آواز اپنی انتہا پر تھی ہم تب بھی آبشار نہ دیکھ سکے مگر بہت کچھ دیکھ گئے۔ اس ان دیکھی آبشار کے لیے ایک بار پھر ایسا سفر جائز ٹھہرتا ہے۔
•••
تھکاوٹ کے مارے سبھی کی حالت پتلی تھی مگر شکر ہے کہ ہم نیچے جا رہے تھے، اوپر جانے کی ہمت نہیں تھی۔ اوپر جا رہے ہوتے تو غلط جا رہے ہوتے۔
آخرکار زِگ زَیگ ختم ہوئے۔ روشنیاں بتا رہی تھیں کہ ہم کافی نیچے آ چکے ہیں اور لٹکنے والی ڈھلوانیں عبور کر چکے ہیں۔ آگے پتھریلا راستہ تھا جہاں ٹریک زگ زَیگ نہیں بنا رہا تھا بلکہ سیدھا نیچے کی جانب اتر رہا تھا۔ یعنی وادی کی گہرائی قریب ہی تھی۔
یہاں ہمیں ایک اور آواز آنا شروع ہوئی۔ آبشار کی آواز نہیں تھی، بہتے پانی کی آواز تھی.. یعنی چٹا کٹھا نالہ کافی قریب آ چکا تھا۔ میری بائیں آنکھ پھڑکنے لگی.. جانے کیوں۔
ٹیم کو زبردست بھوک لگ رہی تھی۔ کاشف صاحب نے بہت عرصے بعد دوپہر کا کھانا مِس کیا تھا۔ میاں یاسین کو نیند کے جھٹکے لگ رہے تھے۔ کیپٹن کے مسلز مسائلز کا شکار تھے۔
فیصلہ ہوا کہ چکن سالن گرم کر کے روٹیوں کے ساتھ کھا لیا جائے۔ مگر ہمیں لکڑیاں نہیں مل رہی تھیں.. لڑکیاں تو دُور کی بات ہے۔ کافی دیر کے بعد آخرکار ایک مخصوص قسم کا پودا شروع ہوا جسے جلایا جا سکتا تھا۔ عبید کی نشاندہی پر ہم نے اس پودے کو پُوٹنا شروع کر دیا۔ جب پودے کافی تعداد میں پُوٹے گئے تو ایک بڑے پتھر کے پیچھے انہیں ڈال کر ہم نے مٹی کا تیل چھڑکا جو ہم چند چھٹانک ساتھ لائے تھے۔ لائیٹر کے ذریعے آگ جلائی اور فرائنگ پین پر سالن ڈال کر گرم کیا۔ اس وقت سرد ہوا بھی چلنا شروع ہو گئی تھی۔ شکر ہے کہ بارش نہیں ہوئی ورنہ کام کافی خراب ہو جاتا۔
اس آگ پر سالن گرم کرتے ہوئے جو حدت آ رہی تھی وہ محبوب کی گرم آغوش جیسی تھی۔ ہمارے حواس بہت تیز ہو چکے تھے.. عام حالات کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ہمیں کائناتی مزے دے رہی تھیں۔ ہائے وہ آگ.. جیسے موسیٰ علیہ السلام نے مقدس وادئ طویٰ میں آگ جلائی تھی... اور پھر ایک کائناتی آگ لے کر آ گئے.... وہ آگ پکارتی تھی.. اے موسیٰ، یہ مَیں ہُوں... یہ مَیں ہُوں... مَیں.... بس مَیں ہی مَیں ہُوں.....
کھانے کے حوصلے سے فارغ ہو کر ہم مزید آگے بڑھے۔ کھانا تو کھایا ہی نہ گیا.. سب نے ہلکی پھلکی داڑھ ہی گیلی کی تھی.. یہ بھی کافی تھا۔ کیپٹن تو تقریباً بے ہوش ہی تھیں، بس آگ کے پاس پڑی رہیں۔
•••
ڈَیک ٹُو کی روشنی میں سے ایک روشنی الگ ہوئی اور ہماری جانب بڑھنا شروع ہوئی۔ ہم بھی اُسی جانب بڑھ رہے تھے۔
آدھے گھنٹے بعد جب ہم وادی کی نچلی سطح پر پہنچے تو وہ روشنی ہمارے قریب آ چکی تھی۔ سرچ لائیٹ کی روشنی میں ہمیں ایک چہرا نظر آیا جس پر بلندیوں کی چھاپ تھی۔
"مَیں حسن بلتستانی ہوں۔ ڈسکور پاکستان کی ٹیموں کے ساتھ جاتا ہوں۔ مجھے عمر بھائی نے واکی ٹاکی پر پیغام دیا تھا کہ آپ لوگوں کو ریسکیو کرنا ہے۔ یہ لیں روٹی اور اچار کھا لیں۔ پھر کیمپ میں چلتے ہیں۔ آپ کے لیے بون فائر جلائی ہوئی ہے۔ سونے کا انتظام بھی کر دیں گے۔" ہائے حسن بھائی کتنے پیارے لگے، آپ جب تک خود اس تجربہ سے نہیں گزریں گے، آپ کو معلوم نہیں ہو سکتا کہ سچا پیار کیا ہوتا ہے۔
•••
ہم نے کھانا نہ کھایا بلکہ عرض کی کہ بس ہمیں کیمپوں میں لے چلیے۔
چلتے ہوئے حسن بھائی نے کہا "آپ کے لیے ایک خوش خبری ہے"۔ اب ہم ہر خوش خبری کے لیے تیار تھے اور ہمہ تن خرگوش تھے۔
"ابھی ہم چٹا کٹھا نالہ کراس کریں گے.. واہ وا۔"
"ہائیں... یہ خوش خبری ہے حسن بھائی؟" میری بائیں آنکھ مزید پھڑکی۔
"جی آ..." جواب ملا۔
عبید بولا "حسن بھائی یہاں لکڑی کا ایک پُل بھی تو تھا۔"
"وہ تو کب کا اکھیڑا جا چکا ہے۔"
کیا یہ زبردست مزاق تھا.. بالکل نہیں۔ مَیں نے غور کیا کہ حسن بھائی نے ٹراؤزر اوپر کی جانب مروڑی ہوئی تھی اور اُن کی ٹانگیں کافی گیلی تھیں۔ بہرحال کیا کِیا جا سکتا تھا۔
کچھ دیر چلے تو وہ دو خیمے بھی قریب آ گئے جن کی روشنی ہمیں بعد میں نظر آئی تھی۔ وہاں دو لوگ تھے جو کسی بڑی کمپنی میں آفیسرز تھے۔ اُن میں سے ایک صاحب ہمارے قریب آ گئے۔ ہم نے ایس-او-ایس سگنلز کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے آفر دی کہ اپنی کیپٹن کو یہاں دے جائیے ہم انہیں ایک خیمے میں سُلا دیں گے۔ باقی مرد حضرات کھیلیں کُودیں۔ ظاہر ہے ہمیں یہ کیسے گوارا ہو سکتا تھا کہ ہم اپنی اتنی قیمتی کیپٹن انہیں دے کر ڈَیک ٹُو چلے جاتے.. اگرچہ اُن صاحبان کی نیت درست اور رحمدلانہ تھی۔
اس دوران میاں یاسین بڑبڑائے "ہائے وے بطُوطیا... یہ کیا کروا دیا۔ ڈسکور پاکستان نے اپنے کمپیٹیٹر دی-ٹریکرز کو ریسکیو کیا ہے.. بیستی جئی ہو گئی اے۔"
"سر، اس وقت آپ دی-ٹریکرز کی حیثیت میں یہاں نہیں۔ فرینڈز ٹوؤرز میں ہیں۔ اور فرینڈز آپس میں یہی کرتے ہیں۔ ریلیکس کریں۔"
•••
کچھ دیر میں نالہ کی آواز اتنی بڑھ گئی کہ
~ کرتے ہیں خطاب آخر، اُٹھتے ہیں حجاب آخر
~ افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
ایک اندھیری شَب میں تیز رفتار اور کافی چوڑا، برزخ نما نالہ.. ذرا سوچیے۔ حسن بھائی نے کیپٹن کو کندھے پر سوار کیا اور دھیرے دھیرے نالہ عبور کر گئے۔
بقیہ ہم چار بظاہر خود کو کوستے ہوئے مگر اندر سے خوش باش جہاں گردوں نے جوتے جرابیں وغیرہ اتارے اور ٹراؤزر اوپر مروڑے۔ البتہ مَیں نے جرابیں نہیں اتاریں کیونکہ مَیں اپنے آپ کو حوصلہ دینا چاہتا تھا کہ مَیں نہا تو نہیں رہا۔ اس کے بعد ہم تاریکی کے سمندر میں ہی اِک دریا میں اتر گئے۔ پانی کا پریشر بہت زیادہ تھا اور یخ پانی گھٹنوں تک آ رہا تھا۔ عین درمیان میں میرے جامنی ٹراؤزر کے مروڑ کھل گئے۔ سرد پانی کے تھپیڑے تو کم ہو گئے مگر ٹراؤزر گیلے ہو گئے۔ اندر ہر شے سُن ہو گئی.. مَیں تقریباً ناصر جان خان یا نعمان خان ہو گیا۔
پار اتر کر مَیں ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہوا۔ پورے دن کی تھکن اور پریشانیاں غائب ہو چکی تھیں۔ دل خوشیوں سے بھر گیا۔ جانے کہاں سے طاقت عود آئی۔ مجھے ابھی تک بڑی حیرت ہے۔ محبوب کے پانیوں میں اتنی انرجی تھی۔ یہ وہی پانی ہیں جو جھیل کی آنکھوں کی بجائے نیچے چٹانوں کے اندھیروں سے ابلتے ہیں۔
•••
نالہ عبور کرنے کے بعد ڈَیک ٹُو ابھی نزدیک نہ تھی۔ دو سو میٹر چڑھائی بھی چڑھنا تھی جو ہم چڑھتے چڑھتے آخرکار چڑھ ہی گئے۔ اوپر خیموں کی بجائے ایک بہک کے قریب کافی ساری ٹارچوں والے لوگ کھڑے تھے۔ ایک لمحہ کو محسوس ہوا جیسے فوت ہونے کے بعد "اُس پار" اسی طرح روحوں کا استقبال ہوتا ہے۔
اور یہ شدید روشنیاں.. اتنی زیادہ روشنیاں... جیسے بندرگاہ میں جہازوں اور کشتیوں کی روشنیاں ہوں.. اتنی زیادہ روشنیوں کی ضرورت نہ تھی:
~ اندھیروں کو نکالا جا رہا ہے
~ مگر گھر سے اجالا جا رہا ہے
•••
گرما گرم بہک کے اندر بون فائر پر چائے پکاتی ڈسکور پاکستان کی ٹیم موجود تھی جو ہمارا ہر ممکن طریقے سے خیال رکھ رہی تھی۔ سب مرد ہی تھے۔ پتھروں سے بنی بہک کی چھت دیودار لکڑی کے تختے اور مٹی کے لیپ سے تیار شدہ تھی۔ اس بہک میں دو بڑے کمرے تھے۔ پچھلے کمرے میں لکڑیوں کا ڈھیر تھا اور یقیناً چرواہوں نے زیرِ زمین آلو بھی سٹور کیے ہوئے تھے۔ وہاں جانور بھی رکھے جاتے ہیں۔ آجکل چرواہے یہ بہکیں چھوڑ کر نیچے جا چکے ہیں اور اس لیے ہم ٹریکرز کیمپس لگانے کی بجائے انہی فائیو سٹار بہکوں کو استعمال کر لیتے ہیں۔ اگر ہم نے پلان کے مطابق رات گزارنی ہوتی تو انہی بہکوں میں سے ایک میں ٹھہر جاتے۔ ہمیں ابو البطُوطا محترم شفیق شاہ نے بتایا تھا۔
عمر بھائی نے ہم سب کو آگ کے قریب بٹھایا اور ایک ایک کپ چائے سب کو دی... پھر کہنے لگے:
"آپ لوگ جب یہاں ٹھہرنے کی بجائے اوپر چلے گئے تو ہم جان چکے تھے کہ آپ کو ریسکیو کرنا پڑے گا۔ شکر کریں کہ ہم ڈَیک وَن کی بجائے ڈَیک ٹُو میں آن ٹھہرے ورنہ آپ کو ہماری روشنیاں نظر نہ آتیں۔ ڈَیک وَن ذرا اوٹ میں ہو جاتی ہے۔"
واقعی.. کائنات کی جانب سے زبردست مدد ہوئی ورنہ کام کافی خراب ہو جاتا۔ وہ تو ہم ملکی سیاسی و مذہبی حالات کے مارے ہوئے لوگ ہیں.. کچھ مسافرِ شَب ہیں.. اسی لیے آزمائشوں کی کافی ٹریننگ لی ہوئی ہے ورنہ سیاہ سمندر ہمیں کہیں کا نہ چھوڑتا۔
ویسے اِن اندھیروں کی دہشت بہت زیادہ ہوتی ہے، اتنے خطرناک ہوتے نہیں۔ خطرہ صرف اُس وقت ہوتا ہے جب انسان کو انسان سے خطرہ ہو۔ کسی کو کیا معلوم کہ مکڑا ٹاپ کی دھند میں اچانک کسی جانب سے پردہ پوش ڈاکو کی بندوق کن پٹی پر محسوس ہو تو کتنا خطرہ ہو جاتا ہے۔
•••
عمر بھائی نے کیپٹن کے لیے ایک بستر تیار کروایا۔ ذرا ماحول چیک کیجیے گا۔ پتھروں کی باؤنڈری بنا کر اندر گھاس ڈال کر اُس پر سلیپنگ بچھایا گیا۔ جگہ کافی زیادہ تھی اس لیے مَیں بھی قریب ہی گھاس پر لیٹ گیا۔ بون فائر جل رہا تھا اور اُس کی تپش پورے ہال کو گرم کر چکی تھی۔ پورا ہال جہاں گردوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میرا ٹراؤزر گیلا ہونے کے باعث مجھے بار بار اٹھ کر بون فائر سے شرمناک حد تک قریب ہونا پڑ رہا تھا۔
ہم مرد حضرات آگ کے قریب جیکٹوں سویٹروں میں سو رہے۔۔ البتہ عمر بھائی نے خصوصی طور پر میاں یاسین کو اپنے ساتھ سلایا۔ اب ڈر ہے کہ میاں یاسین فرید گجر بھائی کو چھوڑ کر ڈسکور پاکستان میں نہ آ جاویں۔ دیکھتے ہیں مستقبل میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
•••
صبح ڈسکور پاکستان ٹیم نے ناشتا کیا جو حسن بھائی نے انہیں اپنے ہاتھوں سے بنا کر دیا۔ پھر وہ سب چٹا کٹھا کے لیے نکل گئے۔ اس کے بعد حسن بھائی نے ہمیں بھی آملیٹ بنا کر دیے اور سامان پیک کر کے خود بھی ٹیم کے پیچھے نکل گئے۔
ہمارے پاس سوائے نیک خواہشات کے، عمر بھائی اور حسن بھائی کو دینے کے لیے کچھ نہ تھا۔ ان حالات میں اپنے محسنوں کو کچھ آفر کرنا زبردست بے غیرتی کے زمرے میں آتا ہے۔ البتہ ہمارا وعدہ ہے کہ جب کبھی آپ بطوطے کو اپنے ہمراہ لے کر گئے تو ہم بھی آپ کو ریسکیو کریں گے۔
•••
صبح.... ہری پربت کے پیچھے سے سورج کی کرنیں نہایت خوبصورت زاویہ بنا رہی تھیں۔
مَیں قضائے حاجت کے لیے بہکوں سے پیچھے چلا گیا اور بیٹھ گیا۔ جب ابھی میں نصف عمل میں ہی تھا کہ محسوس ہوا کہ کچھ غلطی ہو گئی ہے۔ مَیں بالکل عین کھائی کے کنارے پر بیٹھا ہوا تھا۔ ذرا سا لڑھکتا تو اعمال ساکت ہو جاتے۔ لہذا بقیہ عمل موقوف کر کے واپس آ گیا۔
•••
اب ہمارا سفر دوبارہ شروع ہوا اور ڈیڑھ گھنٹے میں ہم نیچے شونٹر نالہ کے پاس پُل پر پہنچ چکے تھے۔ ایک "ڈز" کی آواز آئی اور پوری وادی دہل گئی۔ ننگی ماہلی میں سے روبیاں نکل رہی تھیں۔
آگے بیس منٹ لگا کر ہم سڑک اور کیمپ سائیٹ میں آ گئے۔ کاشف صاحب ہم سے پہلے پہنچ کر ٹائر وغیرہ کا انتظام کر رہے تھے مگر آخرکار انہوں نے کہہ دیا کہ انکار ہی سمجھیں۔ دوسری جیپ کا انتظار کرنا پڑے گا۔
اس علاقہ میں ٹرانسپورٹ ملنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہمارا پلان تھا کہ ہم آج ہی ارنگ کیل وزٹ کریں گے مگر ڈھائی گھنٹے بعد ہمیں ایک جیپ ملی جو آلو لے کر کیل جا رہی تھی۔
جیپ ڈرائیور بڑا ہی مزاحیہ تھا.. ہر جگہ سٹاپ پر ماحول مزید "آلو-دا" ہو جاتا تھا۔ اس کا ساتھی چھت پر بیٹھا تھا اور ہر تھوڑی دیر بعد پھدکتی جیپ میں ہی اُس کا سر کبھی کھڑکی پر آ جاتا اور کبھی ونڈ سکرین پر۔ سب سے زیادہ مزہ ساؤنڈ سسٹم نے دیا جو پیپنی جیسی آواز نکال رہا تھا۔
کیل پہنچتے پہنچتے شام ہو گئی.. لہذا ہم واپس روئل گیسٹ ہاؤس میں منتقل ہو گئے۔ مَیں نے ایک گزارش کی کہ اگر ہم چاہیں تو ابھی دواریاں کے لیے نکل سکتے ہیں۔ شب وہاں ٹھہر کر کل رتی گلی جھیل کر لیں گے، پھر اسلام آباد نکل لیں گے۔ مگر فیصلہ یہی ہوا کہ مہم اتنی بھی بُری نہیں رہی.... رتی گلی پھر سہی۔
•••
اگلے دن صبح 7.30 پر ہم نے "اے-جے-کے ٹوؤرازم اینڈ آرکیالوجی" والے لوج کی پارکنگ میں غزال کو پارک کیا۔ کافی دیر بحث کے بعد نتیجہ نکلا کہ ٹوؤرازم والے اپنی املاک کا خیال نہیں رکھتے اسی لیے وہ املاک کھنڈرات میں بدل جاتی ہیں.. اسی لیے آرکیالوجی کو بھی ساتھ ہی شامل کر لیا گیا ہے.. وقت بچانے کے لیے۔
لوج کے قریب 2-منٹ والی ڈولی میں بیٹھ کر بائے ایئر ارنگ کیل کی پہاڑی تک پہنچے اور آدھا گھنٹہ کی ٹریکنگ کر کے ارنگ کیل میں داخل ہو گئے۔ ویسے تو 25 منٹ میں پہنچے۔ 5 اضافی منٹ مَیں نے عورتوں، بیماروں، یتیموں اور مساکین کے لیے بڑھا دیے ہیں۔
عین پیچھے، شونٹر کی جانب "سروالی پِیک" ایک ماڈل کی مانند نظر آ رہی تھی۔ مَیں نے دل ہی دل میں فاتحہ پڑھی.. اللہ عمران جنیدی، خرم راجپوت اور عثمان طارق کو جنت میں بھی یہی چوٹیاں نصیب کرے۔
ارنگ کیل کے پس منظر میں جو کیل کا پہاڑ اور خوابناک جنگل ہے.. اُس کی دلکشی لاجواب ہے۔ مزید یہ کہ رولنگ ہلز پر جو روایتی گھر بنے ہوئے ہیں، وہ خوبصورتی میں بہت اضافہ کرتے ہیں۔ یہاں کافی سارے ہوٹلز ہیں۔ یہ جگہ تین چار دن ٹھہرنے کی متقاضی ہے۔
ایک جگہ کالا شاء گدھا کھڑا تھا۔ میاں جی اُس کے سامنے بیٹھ کر سوچوں میں گُم ہو گئے۔ وجوہات معلوم نہ ہو سکیں۔
•••
مسک ڈیئر ہوٹل سے آگے ایک وسیع سرسبز علاقہ ہے، وہاں ہم نے کافی فوٹوگرافی کی۔ بڑا ہی شاندار موسم تھا۔ وہیں ایک کالا سا بُوچا کُتا ہمارے پیچھے لگ گیا۔ وہ کتا واقعی بہت پیارا تھا.. بلکہ مَیں نے اُسے رج کر پیار کیا۔ کالے گدھے کی طرح وہ کالا بُوچا کتا بھی میاں جی پر پیار بھری نظر رکھے ہوئے تھا۔
•••
ایک قبرستان تھا...
ایک قبر تھی جس کا فریم آرمی کے رنگ لیے ہوئے تھا..
اس قبر میں سے پاکستان کا جھنڈا بلند ہو رہا تھا..
کوئی طاقت تھی جو مجھے اُس کی جانب کھینچ رہی تھی...
جب مَیں قریب پہنچا تو دیکھا کہ شہید کے کتبے پر 119 لکھا ہوا تھا... مَیں نے کہا "شکریہ سَر...."
•••
شاردہ میں شرّدھا دیوی کے مندر کو سلام کرنے کے بعد بطُوطا کے ایک اور انکل محترم ضیاء الرحمان قریشی صاحب کی کیمسٹ والی دکان پر ہم نے چائے کے ہمراہ کشمیرے کلچے کھائے اور شکریہ ادا کیا۔ محترم جماعتِ اسلامی ضلع نیلم کے سیکریٹری ہیں۔ ان سے ملاقات بہت اچھی رہی۔
•••
شَب کے کسی پہر ہم پنڈی ڈیوو ٹرمینل کی سیٹوں پر بیٹھ کر ٹی-بیگز والی چائے پی رہے تھے۔
چہل پہل اچھی تھی... مگر مَیں نے پہل ہرگز نہ کی تھی۔
(ختم شُد) اب ہم انتظار کر رہے تھے کہ آگے کیا ہو۔
Comments
Post a Comment